نظر خموش ہوئی عرض نا تمام کے بعد
نظر خموش ہوئی عرض نا تمام کے بعد
کچھ اور کہہ نہ سکے اشک بے کلام کے بعد
یہ مغبچے ترے ساقی ابھی ہیں خیرہ بہت
ہر ایک جام تہی اور صلائے عام کے بعد
بس اتنی بات کے کیا کیا ہیں بزم میں چرچے
وہ مسکرا سے دیے تھے مرے سلام کے بعد
نماز جام پڑھی شیخ نے نہیں لیکن
عجب سا نور ہے رخ پر طلوع شام کے بعد
ہر اک نزاع کا حل انتقام ہی ہے ابھی
مگر سوال تو یہ ہے کہ انتقام کے بعد
یہ لگ رہا ہے کہ جیسے بچھڑ رہی ہے حیات
پلٹ پلٹ کے نگاہیں ہیں گام گام کے بعد
کسی محل کسی وادی کسی چمن میں نہیں
وہ گل جو دل میں مہکتا ہے نیک کام کے بعد
غرور تشنہ لبی بھی ہے کوئی شے ساقی
تقاضا ہم نہیں کرنے کے جام جام کے بعد
یہ سچ نہیں کہ مرے دل میں اور نام نہیں
مگر یہ سچ ہے کہ یہ سب ہیں تیرے نام کے بعد
ہے زیست زیست اسی کی کہ جس کے بازو کو
عروش صبح بھی ڈھونڈے نگار شام کے بعد
بدلتی قدروں میں کچھ ہوں کہ کچھ نہیں ملاؔ
سوالیہ سا نشاں ہوں خود اپنے نام کے بعد