نواب آصف الدولہ

(ولادت 1161ھ۔ تخت نشینی 1187ھ۔ وفات 1212 ہجری)نواب آصف الدولہ، فرماں روایان اودھ میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور فرماں روا ہوا ہے لیکن یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ا س کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت اس کا پاکیزہ ذوق سخن تھا۔ پانچ لاکھ روپیہ خرچ کر کے نجف اشرف میں نہر آصفی جاری کرانا، شریف مکہ کی ایک لاکھ روپیہ سے مدد کرنا، اسی طرح بے شمار دولت انعام و اکرام میں تقسیم کر دینا، غلط بخشیوں کی تاریخ میں اسے خلعت دوام بخش سکتا ہے اور لکھنؤ کا وہ عظیم الشان عزا خانہ جو اس کے نام سے منسوب ہے، ممکن ہے مذہبی نقطہ نظر سے بھی اس کی یاد کو کبھی فراموش نہ ہونے دے لیکن جو چیز حقیقی معنی میں اس کے نام کو زندہ رکھنے والی ہے وہ اس کی سخن سنجی ہے، جس کا ذکر اور تو اور خود حضرات لکھنؤ نے بھی کبھی نہیں کیا۔شاہ عالم بادشاہ دہلی کے پندرہویں سنہ جلوس میں اودھ کی مسند وزارت پر 1187ھ میں متمکن ہوا اور 1212ھ بعارضہ استسقا انتقال کیا۔ اس چھبیس سال کے طویل عہد وزارت میں اس نے کیا کیا حرکتیں کیں، کن کن خبائث میں مبتلا رہا، عیش و عشرت کی بد مستیوں میں ملک کی دولت کس بد تمیزی سے اڑائی، ہمیں ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ان سے بحث کرنا موضوع زیر بحث سے علیحدہ ہے، لیکن جستجو ہمارے لئے ضروری ہے کہ سر زمین اجودھیا میں جہاں اس کے باپ شجاع الدولہ کے زمانہ میں بھی کوئی شاعر پیدا نہ ہوا تھا، اس میں یہ اہلیت کیونکر پیدا ہو گئی۔دہلی و نواح دہلی کے شعرا میں سب سے پہلے اشرف علی فغاں نے ہجرت اختیار کی اور 1168 ھ میں اپنے چچا ایرج خاں کے پاس مرشد آباد گئے، وہاں سے لوٹے تو فیض آباد آئے (شجاع الدولہ کا زمانہ تھا) اور پھر عظیم آباد چلے گئے، جہاں 1186ھ میں یعنی آصف الدولہ کی تخت نشینی سے ایک سال قبل انتقال کیا۔ ان کے بعد ضیاء الدین ضیاء کا شجاع الدولہ کے زمانہ میں فیض آباد جانا پایا جاتا ہے لیکن یہاں ان کی کس مپرسی کا حال اس سے ظاہر ہے کہ وہ نہ فیض آباد میں رہ سکے، نہ لکھنؤ میں، بلکہ عظیم آباد جا کر شتاب رائے کے بیٹے کا دامن پکڑا اور وہیں انتقال ہوا۔ ضیاء کی ولادت و وفات کی کوئی تاریخ تذکروں میں درج نہیں ہے۔ لیکن یہ ثابت ہے کہ میر ضیا سودا کے ہم عصر تھے۔ میر حسن کے استاد رسوا کا سنہ ولادت 1125ھ ہے۔ اس لئے اگر میر ضیا کا سنہ ولادت زیادہ سے زیادہ 1150ھ قرار دیا جائے اور 1175ھ میں فیض آباد آنا، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آصف الدولہ کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ چودہ سال کی رہی ہوگی۔میر ضیاء کے بعد میر حسن فیض آباد گئے اور لکھنؤ بھی آ کر رہے لیکن شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کی کوئی توجہ حاصل نہ کر سکے۔ کیونکہ ان کا تعلق اگر رہا بھی تو لکھنؤ میں نواب سالار جنگ یا ان کے بیٹے مرزا نوازش علی خاں سے اور وہ بھی اس درجہ تنگی و عسرت کے ساتھ۔ وہ خود لکھتے ہیں، ’’تا حال بہر نوع گزراں می نمائیم۔‘‘ اس لئے ظاہر ہے کہ ’آصف الدولہ ‘ کو ان تینوں شاعروں میں کسی کی صحبت نصیب نہیں ہوئی۔ اس کے بعد جب وہ تخت نشین ہوا تو بے شک سودا، میر، سوز، مصحفیؔ، انشا سبھی لکھنؤ پہنچے لیکن اس کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ اس میں سودا کا رنگ ہے، نہ میر کا، نہ مصحفی کا اتباع ہے نہ انشا کا، البتہ سوز کی خصوصیات ضرور پائی جاتی ہیں۔ سو ان کو بھی ہم سوزؔ کا فیض صحبت اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ یہ استادی شاگردی رہی کتنے دن۔سوز کا سنہ ولادت کسی تذکرہ نویس نے نہیں لکھا لیکن تاریخ وفات 1313ھ پر سب کا اتفاق ہے بعض نے عمر 75 اور 80 کے درمیان بتائی ہے، بعض نے 82 سال۔ بہر حال یہ یقینی ہے کہ تقریباً 80 سال کی عمر انہوں نے پائی تھی اور اسی لئے 1131ھ کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہوں گے۔سوزؔ اول لکھنو کب پہنچے، اس کی بھی صحیح تاریخ متعین نہیں ہو سکتی۔ آزاد نے لکھا ہے کہ 1191ھ میں لباس فقر اختیار کیا اور لکھنؤ چلے گئے۔ آزاد نے غالباً میرزا علی لطف کے تذکرہ کو دیکھ کر لکھا ہے لیکن لطف کے بیان سے یہ کہیں واضح نہیں ہوتا کہ وہ اسی سال لکھنؤ گئے البتہ لباس فقر اختیار کرنے کا ذکر کیا۔ بظاہر یہ تو صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سال دہلی سے روانہ ہوئے اور سب سے پہلے فرخ آباد مہربان خاں رند کے پاس گئے لیکن فرخ آباد سے لکھنؤ و مرشدآباد کب گئے، اس کا پتہ کچھ نہیں چلتا۔ بعض تذکروں سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1212ھ میں مرشد آباد گئے اور اسی سال لکھنؤ واپس آئے تو آصف الدولہ شاگرد ہوئے اور چند ماہ کے بعد انتقال کر گئے۔بعض تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ فرخ آباد چھوڑ کر یہ لکھنؤ آئے اور جب ان کا رنگ یہاں نہ جما تو مرشد آباد چلے گئے اور وہاں سے پھر 1212ھ میں واپس آئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آصف الدولہ نے سوز کی شاگردی اختیار کر لی تھی، جب وہ فرخ آباد سے پہلی مرتبہ لکھنؤ پہنچے تو اس کا یقین نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اگر نواب ان کا شاگرد ہو جاتا تو یہ بد دل ہوکر مرشدآباد کیوں چلے جاتے۔ میرزا علی لطف نے اپنے تذکرہ گلشن ہند میں جو اس عہد کانہایت ہی مستند تذکرہ ہے، نہ سوز کے تذکرہ میں آصف الدولہ کے استاد ہونے کا ذکر کیا ہے، نہ آصف الدولہ کے بیان میں سوز کے شاگرد ہونے کا۔ انہوں نے سوز کے متعلق صرف اس قدر لکھا ہے کہ شاہ عالم کے اٹھارویں سنہ جلوس میں لباس فقر اختیار کیا۔ لکھنؤ میں تو کل و قناعت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ 1212ھ میں مرشدآباد گئے اور اسی سال لکھنؤ واپس آکر انتقال کیا۔ اسی طرح تذکرہ بزم سخن (عوض علی خاں) میں بھی آصف کی شاگردی کا ذکر نہیں پایا جاتا۔الغرض مجھے اس کے ماننے میں تامل ہے کہ آصف الدولہ سوز کے شاگرد تھے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آصف الدولہ ان کے کلام کو پسند کرتا تھا ور ان کی شاگردی اختیار کرنے سے قبل اس کا انتقال ہو گیا۔ یا یہ کہ اگر شاگردی کا سلسلہ رہا بھی تو صرف چند دن جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا کلام سوز کے رنگ کا ہے اور ممکن ہے کہ اس بنا پر کوئی شخص یہ کہے کہ آصف الدولہ کا سارا کلام سوز ہی کا کلام ہے اور اسی لئے اب سوز کا کلام بہت کم نظر آتا ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کیونکہ سوز نے جب کہا، ہمیشہ سہل زمینوں میں اور مشکل ردیف و قوافی اختیار ہی نہیں کئے۔ بر خلاف اس کے آصف الدولہ کے یہاں ایسی مشکل زمینیں نظر آتی ہیں کہ شاید ہی کسی اور شاعر کے کلام میں نظر آئیں اور میرے نزدیک یہ اثر تھا مصحفی اورانشا کی صحبت کا۔بہرحال آصف الدولہ نے سوز کی شاگردی اختیار کی ہویا نہ کی ہو، یہ بالکل یقینی ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے نہایت پاکیزہ ذوق سخن لے کر آیا تھا اور اس میں سوز یا کسی اور کی صحبت کو دخل نہ تھا۔ آصف الدولہ کی ماں تاریخ اودھ کی وہ مشہور خاتون ہے جسے بہو بیگم کے نام سے آج لکھنؤ کا ہر وثیقہ دار جانتا ہے۔ بہو بیگم سسرال کا لقب تھا ورنہ ان کا نام امۃ الزہرا بیگم تھا اور موتمن الدولہ محمد اسحاق خاں شوستری کی کی بیٹی تھیں۔ موتمن الدولہ محمد شاہ بادشاہ دہلی کے زمانہ میں میر آتش کی خدمت پر مامور تھے اور بادشاہ نے ان کی لڑکی امۃ الزہرا بیگم کو اپنی بیٹی بنایا تھا اور شجاع الدولہ کے ساتھ بیاہ دیا تھا۔ امۃ الزہرا بیگم کا نشو و نما محمد شاہ کے اس دور میں ہوا تھا جب وہاں کے ذرہ ذرہ سے رنگینی و شاعری ابلتی تھی، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس ماحول سے متاثر نہ ہوئی ہوں اور ان کے بیٹے آصف الدولہ میں یہ اثر منتقل نہ ہوا ہو۔آصف الدولہ کی شاعری کی عمر کیا تھی یا یہ کہ کس عمر میں اس نے شاعری کی ابتدا کی، اس کے متعلق تاریخیں اور تذکرے ساکت ہیں۔ لیکن کلام کی کثرت کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ شوق انہیں عنفوان شباب ہی سے شروع ہو گیا ہوگا۔ ان کا جو قلمی کلیات میری نظر سے گزرا ہے، بڑی تقطیع کے سیکڑوں صفحات پر محیط ہے اور تمام اصناف سخن اس میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تقریباً ایک ہزار سے زیادہ اشعار کی مثنوی، حمد اور نعت و منقبت میں ہے۔ اس کے بعد چوبیس پچیس غزلیں فارسی کی ہیں اور مختلف اساتذہ فارسی واردو کی غزلوں پر تضمینیں، جن شعرا کی غزلوں کی تضمین کی ہے ان میں خاص خاص یہ ہیں، میلی، سعدی، نظیریؔ، حافظؔ، سودا، ؔ سوزؔ، احسن، مہر، جرات، دردؔ، مصحفیؔ، ضیاءؔ اور سوزاں۔ 1 اس کے بعد ایک نظم مسلسل ’’مثنوی حضور‘‘ کے نام سے 66 اشعار کی ہے جس میں کسی لشکر کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا شعر یہ ہے۔آصف اک جی میں آئی ہے یہ چہللکھئے لشکر کا حال جز اور کلایک مثنوی مرزا وزیر علی خاں بہادر کی شادی پر ہے جس کو انہوں نے اپنا بیٹا بنایا تھا اور دوسری مختصر مثنویاں وزیر باغ کی تعریف میں ہیں۔ ایک حصہ ہزل وہجو کا بھی ہے جس میں میر چھجوؔ، میر مہوا ؔ اور کریلا بھانڈ کا خاکہ ایسے فحش الفاظ میں اڑایا گیا ہے کہ ان کوکوئی سنجیدہ شخص پڑھ نہیں سکتا۔کریلا کی ہجو کے چند اشعار جو بہت سنجیدہ ہیں نمونتاً ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔نقل طرفہ ہے اک کریلا کیآئی بےاختیار جس پہ ہنسیپاک ساون کی رات اندھیاریجا پڑا اپنی ماں پہ یکباریٹانگیں لیں اس چڑیل کی جو اٹھابولی وہ تجھ کو خیر ہے بیٹاتب وہ ماں کا فلانا یوں بولامیں جو تیری ازار کو کھولانہ بگڑ مجھ سے میں سنورتا ہوںباپ اپنے کی نقل کرتا ہوںخیر یہ ہزل وہجو تو کوئی ایسی چیز نہیں جس پر حیرت کی جائے کیونکہ آصف الدولہ کی عمر ہی اس قسم کی بیہودگیوں میں صرف ہوئی لیکن تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب اس کے بعد غزلیات کا حصہ سامنے آتا ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک سلاست و روانی کے سوا اور کچھ ہے نہیں۔ فارسی غزلیں کم ہیں لیکن جس رنگ کی ہیں، اس کا حال ذیل کے اشعار سے واضح ہوگا۔پیوستہ کسے کہ کامران استآں آصفِ خسروِ زماں استدل بردن د بازر دنداوںایں رسم کدام دلستاں استتاثیرِ آہ بالب افغاں رسید و مانددست جنوں بچاک گریباں رسیدو ماندتضمینوں کے لئے جن اساتذہ اور ان کی جن غزلوں کا انتخاب کیا ہے، اس سے توخیر آصف الدولہ کی پاکیزگی ذوق ظاہر ہوتی ہی ہے لیکن تضمینیں جس خوبصورتی سے کی ہیں ان کی داد نہیں دی جا سکتی۔ میلی کے ایک شعر کی تضمین ملاحظہ ہو۔بہتیرا چاہا دل سے بھلاؤں ٹک اس کی یادجیوں جیوں خیال کم کیا الفت ہوئی زیادہجوں رہ گزر میں دیکھا اسے کر کے دل کو شادگفتم بیا بوعدہ وفا کن جواب دادخوش بر فریب وعدۂ مادل نہادہسعدی کے ایک شعر پر فارسی کی تضمین دیکھئے۔صد چشم بزخم خود کشو دیمبر پائے تو روئے عجز سو دیمبیجانہ چنیں وفا نمودیمآخر من و تو نہ دوست بودیمعہد تو شکست و من ہما نمحافظ کی غزل پر تضمین کی ہے ایک شعر کے مصرعے ملاحظہ ہوں۔چہ گویم از من احوال خاک گردیدنسراز جفائے تو اے جان من نہ پیچیدنتعجب ست زمن سر گزشت پر سیدنزنقش چہرۂ عاشق ہمی تواں دیدنکہ ساکنانِ درِ دوست خاکسار انندسوز کی بہت مشہور غزل ہے، جس کا مطلع ہے۔مرا جان جاتا ہے یارو سنبھالوکلیجہ میں کانٹا لگا ہے نکالواسی غزل کا ایک شعر اور ہے۔کہو ایک بندہ تمہارا مرے ہےاے جان کندن سے چل کر بچالوآصف الدولہ نے پوری غزل تضمین کی ہے لیکن متذکرہ بالا دو شعروں پر مصرعے لگائے ہیں۔ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ارے مجھ سے او دوستی کرنے والوکسی سے مرے در ددل کی دوا لوکسی طرح اب کی مجھے تم بچالومری جان جاتا ہے یارو سنبھالوکلیجہ میں کانٹا لگا ہے نکالوکہو کوئی جی تم پہ صدقہ کرے ہےکہو کوئی تمہارا ہی بس دم بھرے ہےکہو کوئی مرنے پہ دل کو دھرے ہےکہو ایک بندہ تمہارا مرے ہےاسے جان کندن سے چل کر بچالوتضمین کی خوبی یہ ہے کہ وہ اصل شعر کے ساتھ مل کر بالکل ایک چیز ہو جائے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آصف الدولہ اس میں کتنا کامیاب ہوا ہے۔ سادگی و بےتکلفی، روانی و بیساختگی آصف کے تمام کلام میں نظر آتی ہے۔ چند رباعیاں ملاحظہ ہوں۔جب کوئی کسی کو یار کلپا وےگایہ یاد رہے وہ بھی نہ کل پاوےگااس دور مکافات میں سن اے غافلبیداد کرےگا آج کل پاوےگاکیا تجھ سے کہوں کہ کس طرح گزری ہےکیا دوں پتہ کہ اس طرح گزری ہےبالفرض اگر کہا تو پھر کیا حاصلگزرے ہے خیر جس طرح گزری ہےآصف جو گلی صنم کی ہم آتے ہیںظلم و ستم و جور اور آفاتیں ہیںہر شب یہی عہد ہے کہ جانا چھوڑیںپر تخفگی یہ کہ روز پھر جاتے ہیںیوں جی میں تمہارے ہی سمائی تو خیرہم جاتے ہیں آپ ہی یہاں کیجئے سیرخلقت ساری پڑی پھرے میں ہی جاؤںاللہ رے تیرا بغض! اللہ رے بیرفرقت کا ستم تو مجھ سے سہنا معلومجو گزرے ہے دل پہ تجھ سے کہنا معلوموابستہ ہے تجھ سے زندگانی اپنیگر تو ہی چلا توجی کا رہنا معلومہر روز شب ہجر کا وسواس رہےہر رات کو روز ہجر کا پاس رہےیہ بے چینی تو اپنی جاتی ہے ابھیآصف کنے سے نہ جائے تو پاس رہےذیل کی دو رباعیاں کس قیامت کی لکھ گیا ہے،ہر لحظہ تری گلی میں رو جاتا ہوںصبر ودل و دیں و ہوش کھو جاتا ہوںدیکھوں ہوں ادھر ادھر کہ جب کوئی نہیںچپکے سے کہیں بیٹھ کے رو جاتا ہوںآصف مرا عشق جو ں جوں مشہور ہواتوں توں بہت مغرور وہ مغرور ہوامیں کاہے کو چاہتا تھا رسوا ہوناپر کیا کروں دل کے ہاتھوں مجبور ہواآپ نے دیکھا کہ رباعیوں میں کتنا پختہ رنگ تغزل رچا ہوا ہے اور زبان کی خامی بعض بعض جگہ کتنا لطف دے جاتی ہے۔ اگر انہیں اشعار کو اٹھا کر آپ اس کی غزلوں میں شامل کر دیں تو کوئی فرق محسوس نہ ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے ابھی ظاہر کیا، آصف کی زبان نہایت سلیس، انداز بیان حد درجہ سادہ، جذبات ہلکے قسم کے عاشقانہ ہیں اور رنگ شاعری ’’گفتگو کرنے‘‘ کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور ظاہر ہے کہ ایسے شاعر کے کلام میں دقت مضامین یا بلندی مفہوم ڈھونڈھنا بےکار ہے، لیکن ردیف و قوافی کے سلسلہ میں اس نے اپنی دشوار پسند طبیعت کے سارے حوصلے نکال لئے۔ چنانچہ بعض ردیف و قوافی ملاحظہ ہوں۔ جو اب تلخ حساب تلخ لیکن شعرمیں وہی سادگی ہے۔کم ہو وے یا الہی کہیں یا یہ مر رہےلگتا ہے اب تونالہ دل بے حساب تلخصنم یا قسمت عجم یا قسمت، اس زمین کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔کوچہ گردی سے اسے شوق ہے لیکن گاہےاس طرف کو نہیں رکھتا وہ قدم یا قسمتگفتگو آتش کا پر کالہ، رو برو آتش کا پرکالہ، اس سخت و سنگین زمین میں کاوش دیکھئے۔عجب شوخی، عجب گرمی، عجائب شوق ہے واللہنہ آتش تو، نہ شعلہ تو، نہ آتش کا پر کالہبادام لذیذ، نا کام لذیذ، اس زمین کا ایک شعر ہے۔دوستو! عشق میں کچھ چیز نہیں بھائے ہےورنہ کس کو نہ لگے خواب اور آرام لذیذاسی ردیف میں بحر و قافیہ بدل کر لکھتے ہیں۔جو غمزدہ ہو ترے عشق کا وہی جانےکہ کیا مزہ کی بھی ہے غم کی داستان لذیذاسی طرح کی سنگلاخ زمینیں خدا جانے کتنی اس نے پیدا کیں اور کسی ایک میں بھی اپنا رنگ نہیں چھوڑا۔ غزلوں کا حصہ کئی سو صفحات پر حاوی ہے، اور مشکل سے کسی غزل میں دو چار شعر ایسے ہوں گے جو انتخاب میں نہ آ سکیں۔ یقیناً آصف کے کلام میں درد کے جذبات کی گہرائی، یا میر کے سوز و گداز کی برشستگی نہیں پائی جاتی، لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ معاملات محبت اور واردات الفت سے وہ کسی جگہ نہیں ہٹا۔ وہی سہل و سرسری اظہار الفت، وہی سادہ بیان ہجراں اور وہی تمام باتیں جوعام طور پر دنیائے محبت میں شکر و شکوہ کے طور پر بیان کی جاتی ہیں، آصف کے کلام کی خصوصیات ہیں۔ محبوب کے سامنے حرف مدعا لب تک نہ آ سکنے کاذکر تمام شعرا نے کیا ہے۔ چنانچہ میر کا یہ شعر مشہور ہے۔کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتاکہنے کی ہیں سب باتیں کچھ بھی نہ کہا جاتاآصف نے اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔سب مجھی سے کہتے ہیں تو اس سے مطلب عرض کرجب زباں یاری ندے تو عرض مطلب کیا کروںاس غزل کا مقطع ملاحظہ ہو۔جان و دل تیارکر رکھوں نثار اس کا ولےبےخبر آصف وہ آ جاوے ادھر جب کیا کروںکس قدر لطیف جذبہ ہے اور کتنے پر لطف پیرایہ میں ظاہر کیا ہے۔ غیر کے ساتھ محبوب کو دیکھنا عاشق کے لئے ستم ہے لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اس کو دیکھے نہیں، آصف اس کشمکش کو یوں ظاہر کرتے ہیں۔جو دیکھوں غیر سے با ہم تو غیرت مارے ڈالے ہےاگر آنکھیں چراتا ہوں تو الفت مارے ڈالے ہےاس غزل کے مقطع میں محبت سے گھبرا کر بےتاب ہو جانے کی کیفیت ملاحظہ کیجئے۔کہاں کی یہ بلا پیچھے پڑی یارب کہاں جاؤں مجھے تو رات دن یارو محبت مارے ڈالے ہےہجر کی تنہائی بہت کٹھن ہوتی ہے لیکن جب محبوب آ کر چلا جائے تو یہ تنہائی سے بھی زیادہ کچھ اور چیز ہو جاتی ہے اور اس خلا کو محسوس کر کے جو بے تابی پیدا ہوتی ہے اس کی تکلیف کی کوئی اتنہا نہیں، آصف اس کیفیت کو کس قدر سادہ لیکن دلدوز انداز میں ظاہر کرتا ہے۔کیا حقیقت پوچھتا ہے میری تنہائی کی توجب کہ میرے پاس سے پیارے ترا جانا ہومحبت کی فتادگیاں، جن میں کچھ تمنا بھی شامل ہو، قیامت کی ہوتی ہیں۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔کوچے سے اپنے تونے مجھ کو عبث اٹھایاسب تو چلے گئے تھے اک میں ہی رہ گیا تھاکیسا رو رو کے وہ شب کرتا تھا مذکور تراوہی بیمار ترا خستہ و رنجور تراہم نے قصہ بہت کہا دل کانہ سنا تم نے ماجرا دل کا یہی حسرت ہمیں اے جان رہی مرگ تلکایک دن تم نے نہ کی ہنس کے کبھی پیارکی باتمعشوق کی اداؤں کا ذکر ہلکی سی کیفیت محاکات کے ساتھ، تغزل کی جان ہے، آصف کے یہاں اس کی بھی بعض مثالیں بہت پاکیزہ ملتی ہیں۔میں نے پوچھا اس سے کچھ تجھ میں وفا ہے تو مڑ کر، دیکھ کر، ہنس کر کہا، ’’ہے‘‘ مرے احوال کو سن سن کے یہ بولا آخرخوش نہیں آتی ہے آصف مجھے تکرار کی باتتشبیہ و استعارہ سے ان کا کلام پاک ہے لیکن اگر کبھی کوئی شعر ایسا نکل گیا ہے تو بھی لطف سے خالی نہیں۔ مثلاً،عجب عالم نظر آتا ہے معشوقوں کے رونے میںذرا دیکھو تو آصف شمع کے آنسو ڈھلکنے کوفارسی ترکیبیں ان کے کلام میں کہیں نہیں پائی جاتیں، اگر کبھی کوئی ترکیب استعمال بھی کی ہے تو نہایت ہی سبک و صاف۔ مثلاً،ہوا ہے جب سے تو اوجھل ہماری نظرو ں سےبسانِ خانہ غارت زدہ سدا ہیں بازچونکہ سادگی ان کے ذوق کی خصوصیت ہے، اس لئے چھوٹی بحروں میں ان کی کامیابی عجیب ہوتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ہائے کیا آصف کو وہ دکھ دے گیالے گیا دل، لے گیا دل، لے گیاکھل گیا باراں، برس کر لاکھ بارپر یہ اشک چشم نت بر سے گیااب کوئی لمحہ میں آتا ہے وہ یاردل سے سارا دن یہی کہتے گیامومن کی غزل ’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ دنیائے تغزل کی نہایت ہی مشہور و مقبول چیز ہے، اور اس میں کلام نہیں کہ مشکل ہی سے دو چار چیزیں کلام اساتذہ میں ایسی نظر آئیں گی۔ آصف الدولہ نے بھی اسی بحر میں لیکن بہ تبدیل ردیف و قافیہ ایک غزل لکھی ہے۔ اسے بھی دیکھ لیجئے۔مرے یار کیسی ادا ہے یہ کہ چمن میں جس گھڑی آ گئےسبھی گل کو آ کے ہنسا گئے، سبھی بلبلوں کو رلا گئےمرے آگے جو گزر گئے، تو پلک سے لاگی نہ پھر پلکوہ جو ضبط کر کے رہا تھا میں، مرے اشک آ کے بہا گئےجو گزرتی ہے مجھے رات دن، ترے اشتیاق وصال میںسو کہوں گا حالت ہجر سب، کبھی رو برو جو تم آ گئےنہ وصال ہی میں قرار تھا، نہ فراق ہی میں قرار ہےوہ وصال کیسا دکھا گئے یہ فراق کیسا لگا گئےیہ جو کہتے ہو کہ بتا سبب، ترے لگتے کیوں نہیں لب سے لباسی روز سے مجھے بڑ لگی، جو تم اپنی باتیں سنا گئےیہ پیام دیجئو قاصدا، کہ خرابی اور تو کیا کہوںوہ جو جائے امن تھا ایک دل، غم و درد اس میں بسا گئےمجھے آصف آہ یہ کیا ہوا کہ مدام نالہ و آہ ہےمیاں یہ فسانہ عشق ہے ترا بھید ہم بھی تو پا گئےآپ دیکھیں گے کہ کلام آصف ؔ میں بہت سے وہ الفاظ بھی نظر آتے ہیں جو اس وقت متروک ہیں مثلاً کنے (بہ معنی قریب) تئیں، کوئی (کئی) میاں، تلک، جیدھر، ایدھر وغیرہ۔ لیکن اس نوع کے الفاظ اس عہد کے تمام شعرا میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ میر درد، سوداؔ اور سوزؔ سب نے انہیں استعمال کیا ہے۔ اخیر میں ان کے چند منتخب اشعار درج کر کے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں، لیکن میرا یہ انتخاب کسی مکمل استقصا کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لئے یہ سمجھ لینا درست نہ ہوگا کہ آصف کے کلیات میں اتنے ہی شعر کام کے ہیں، حالانکہ اگر صرف اتنے ہوں تو بھی بہت ہیں۔ اس انتخاب میں وہ اشعار شامل نہیں ہیں جو اصل مضمون میں آ گئے ہیں۔یہ نہ آنے کے بہانے ہیں سبھی ورنہ میاںاتنا تو گھر سے مرے کچھ نہیں گھر دور تراقصہ فرہاد مجنوں رات دن پڑھتے تھے ہمسو تووہ ماضی پڑا، اب اپنا افسانہ ہوارات دن یہ سوچ رہتا ہے مرے دل کے تئیں اے خدا یاں سے وہ جا کر کس کا ہم خانہ ہواقاصد تو لئے جاتا ہے پیغام ہماراپر ڈرتے ہوئے لیجئو واں نام ہماراآغاز نے تو عشق کے یہ حال دکھایااب دیکھیو کیا ہوےگا انجام ہمارانامہ میں تیرا لے کر منہ دیکھ رہ گیا تھاکیا جانئے کہ قاصد کیا مجھ کوکہہ گیا تھاکوچہ سے اپنے تونے مجھ کو عبث اٹھایاسب تو چلے گئے تھے اک میں ہی رہ گیا تھاکچھ بھی نہ سوجھتا تھاا س بن مجھے تو آصفجس روز ہائے یاں سے وہ رشک مہ گیا تھااس ادا سے مجھے سلام کیاایک ہی آن میں غلام کیایارو اس گل بدن کے تئیں ہم نےکل صبا سے بھی کچھ پیام کیاقصہ جاں گداز اے آصفتھوڑی سی بات میں تمام کیادرد دل ہے تو یار کے باعثغم ہے تو اس نگار کے باعثایک کروٹ سے سو نہیں سکتااس دل بے قرار کے باعثچھانی باد صبا نے کیا کیا خاکمیری مشت غبار کے باعثرویا ہے جیسے یہ دل زار و نزار آجایسا تو روتے دیکھا نہ ابر بہار آجآصف کو منہ لگایا ہے آج اس نے ظاہراًجاتا ہے دوڑ دوڑ جو واں بار بار آجدرد دل اپنا میں اس شوخ سے کہتا لیکنجو چھپا نے میں مزا ہے، نہیں اظہار کے بیچگر یہی نالے ہیں اے دل تو تری شورش سےرہنے پاویں گے نہ ہم کوچہ دلدار کے بیچکوئی بات تو ہماری بھی مان اب خدا سے ڈرکب تک دیا کرےگا ہمیں تو جواب تلخپھرتا ہوں کوہ و دشت میں روتا میں زار زارتجھ بن ہوا ہے گھر مجھے خانہ خراب تلخآصفؔ کو عشق ہے وہ نہ مانےگا ایک باتکیوں اس پہ زیست کرتے ہواے شیخ و شباب تلخبڑا چرچا بڑھے گا اس کا آصفؔہر اک بے درد کو تو مت سنا دردہم نہ سمجھتے تھے یار آصف شوریدہ بھیعاشقوں میں اس کے ہے عاشق فیروز مندگزری جو تیرے غم میں دل نیم جان پرکچھ پوچھ مت میں لا نہیں سکتا زبان پرآصف کو جس نے عشق میں دیکھا ترے کہاآتا ہے رحم میرے تئیں اس جوان پردل آصف پہ کوئی نہ رکھیو ہاتھجل رہا ہے وہ خاکسار ہنوزیہ تیری بات کا کرنا لگا کہ ہاتھ پہ ہاتھرہے گا حشر تلک دوستی کی دستاویزجو نالہ تھمتا ہے تو گر یہ جوش کرتا ہےغرض چھپائے سے چھپتا نہیں ہے عشق کا رازکل تلک ہوتی تھی کچھ نبض گرمی محسوسآج تو نبض ہی ہوتی نہیں اپنی محسوسبات جو دل میں کھٹکتی تھی ہوئی ظاہر آجموت اس شخص کی مدت سے ہمیں تھی محسوسنہ بیٹھو یارو کوئی مجھ سے بےقرار کے پاسکہ خوار ہے جو کوئی بیٹھے بےقرار کے پاسکسی کے پاس نہ تودل سے بیٹھ اے ظالممضائقہ نہیں یوں بیٹھ تو ہزار کے پاساٹھا کے پہنچا ہے کیا کیا خرابیاں تجھ تکزار تو بیٹھ کبھو اپنے سوگوار کے پاسیہ کون دوست ہے میرا جو تجھ کو منع کیابیٹھ آصف غم خوار و غم گسار کے پاسلاکھوں جفا و جور سہے اس کے لیک آہجاتی نہیں ہے دل سے مرے چاہ کیا کروںآنا تو کیا کہ اس کا ادھر کو گزر نہیںاے آہ تجھ میں اتنا بھی ظالم اثر نہیںرکھتے ہیں دو جہان کے اسرار کی خبرگو ہم کو اس کے عشق میں اپنی خبر نہیںہر دم کی آہ سرد، رخ زرد وچشم ترآصف یہ کیا ہے تیرے تئیں عشق اگر نہیںناصح ترے کہے سے نہ اس سے ملا کروںلیکن جو دل ستاوے تو پھر اس کو کیا کروںکب تلک تیرے جدا رہنے کا غم کھاتے ہیںکب تلک باتوں میں اپنے دل کو بہلاتے ہیںگوبرا مانے نہیں تو، اپنا اب یہ دھیان ہے دل ترے کوچہ میں چھوڑیں اور ہم جاتے رہیںتیرے رونے سے آب آصف لوگوں کو تکلیف ہےبس نہ رو کب تک بچارے کپڑے سکھلاتے رہیںہم نشیں پوچھے ہے کیا افسانہ میرے غم کا ہائےغور کر ٹک دیکھ میں خود صورت افسانہ ہوںجس سے میں اپنا حال کہا اس نے یوں کہاتونے تو مجھ سے حال کہا میں کہاں کہوںمرتا ہوں اب تو جان ہی جاتی ہے دوستولے آؤ اس کو جلد کوئی تو مناں منوںچشم عاشق میں یارو خواب کہاںدل عاشق میں صبر و تاب کہاںتجھ سے کیونکر کہے وہ عشق اپناآصفؔ اتنا وہ بے حجاب کہاںکیا کریں کہنے میں ناصح یہ دل زار نہیںورنہ ترک اس سے تو اتنا کوئی دشوار نہیںیوں تو دیوانہ ہوں کیا کیا نہیں بکتا رہتاسامنے اس کے مگر طاقت گفتار نہیںآصف اس وقت میاں کچھ متردد ہے توآج سچ بولیو گھر میں ترے مہمان ہے کونیہ ساری شیخیاں ہیں سن لو یارو سامنے ہو کرکرے گر بات کوئی اس ستم گر سے تو ہم جانیںفرہاد تھا یا مجنوں پھر اچھا زمانہ تھااب لطف نہیں آصف کچھ الفت خوباں میںنہ جی چاہے تھا جس کے پاس سے اک دم سرکنے کو سو اس کے در پہ اب رخصت نہیں ہے سر پٹکنے کوجاتا تو ہوں ہزار خرابی سے واں تلککیا جانئے وہ گھر میں بھی ہو اپنے یا نہ ہووہ ہوا حال سے مرے آگاہمیرے حق میں یہ کچھ نہ ہوئی واللہدل تو جاتا ہے اس کے کوچہ میںجا مری جان جا خدا ہم راہعشق کر کے تو یہ کیا آصفؔہے پر اس کا خدا کے ہاتھ نباہکیا فاش کروں غم نہاں کوپایاں نہیں میری داستاں کوآصفؔ ابھی میں نے کیا کہا تھاٹک بند نہیں تری زباں کوجی نکل جائےگا ظالم مرااب جانے سےیاں نہ آنا ہی بھلا تھا ترے اس آنے سےملنے کو تجھ سے دل تو مرا بے قرار ہےتو آ کے مل نہ مل، یہ ترا اختیار ہےتم زخم دل کی میرے خبر پوچھتے ہو کیاتیر نگاہ دل کے تو اب آر پار ہےیہ کچھ تو حال تیرے دوانے کا اب ہواجیدھر کو جائے، آہ اسے مار مار ہےسبھوں سے بولتا ہے پر مجھی سےنہیں کچھ بولتا کیا جانے کیا ہےکیا سبب آصف گئے جوں ہی چلے آئے وونہیآج کیوں صحبت میں اس کے یار تم کچھ کم رہےکہتے ہیں سبھی گئے گلی سے اک آصف نوحہ گر رہا ہےجب تب اسے دیکھتا ہوں در پرلے شام سے تا سحر رہا ہےجان کیوں کھاتے ہوہو گھر بھی جاؤ گےناصحو! کب تک مجھے سمجھاؤ گےلینا خبر تو اس کی جس کاہے نام آصفمدت سے وہ گلی میں تیری رہا کرے ہےحاشیہ(1) تخلص تھا نواب احمد علی خاں شوکت جنگ کا، جو نواب افتحارالدولہ مرزا علی خاں کا بیٹا اور نواب سالار جنگ کا بھتیجا تھا۔