نو گرفتار محبت کبھی آزاد نہ ہو

نو گرفتار محبت کبھی آزاد نہ ہو
قید میں قید رہے قید کی میعاد نہ ہو


میں تو خاموش رہوں ہجر میں ڈر ہے لیکن
درد اٹھ کر کہیں آمادۂ فریاد نہ ہو


تم میں پنہاں ہیں محبت کے ہزاروں جلوے
اے مری خاک کے ذرو کہیں برباد نہ ہو


کچھ ہیں بکھرے ہوئے پر کنج قفس کے باہر
خوف ہے اور بھی رسوا کہیں صیاد نہ ہو


پھوٹ کر کس کے یہ رونے کی صدا آتی ہے
درد الفت کہیں میرا دل ناشاد نہ ہو


دل کی ایذا طلبی پوچھ لوں کیا کہتی ہے
ٹھہرو ٹھہرو ابھی دم بھر کوئی بیداد نہ ہو


شوقؔ کر دوں جو بیاں کاوش غم کی حالت
اپنا قصہ بھی کم از قصۂ فرہاد نہ ہو