جو محبان وفا ہیں وہ وفا کرتے ہیں

جو محبان وفا ہیں وہ وفا کرتے ہیں
کچھ غرض اس سے نہیں کوئی جفا کرتے ہیں


خوگر درد ہیں سب کچھ وہ سہا کرتے ہیں
دشمنوں سے نہیں مطلب کہ وہ کیا کرتے ہیں


ہم جگر تھام کے جب آہ رسا کرتے ہیں
اک قیامت میں قیامت ہی بپا کرتے ہیں


چارہ گر کا ہو بھلا کون رہین منت
ہم تو خود اپنی ہی زخموں کو سیا کرتے ہیں


ساز ہو عیش کا یا سور مصیبت دم ساز
اب تو ہر حال میں ہم شکر ادا کرتے ہیں


آپ شرما گئے کیوں دیکھ کے رقص بسمل
کیا کہیں تیر نظر چل کے خطا کرتے ہیں


آتش عشق وطن رکھتے ہیں دل میں روشن
اپنی ہی آگ میں جل جل کے بجھا کرتے ہیں


ہر حباب لب جو جلوہ گہہ ہستی ہے
نقش بن بن کے زمانہ سے مٹا کرتے ہیں


شوقؔ سا بندۂ آزاد زمانہ میں کہاں
آج سنتے ہیں کہ وہ یاد خدا کرتے ہیں