نقش پا
یہ نیم خواب گھاس پر اداس اداس نقش پا
کچل رہا ہے شبنمی لباس کی حیات کو
وہ موتیوں کی بارشیں فضا میں جذب ہو گئیں
جو خاکدان تیرہ پر برس رہی تھیں رات کو
یہ رہروان زندگی خبر نہیں کہاں گئے
وہ کون سا جہان ہے ازل نہیں ابد نہیں
دراز سے دراز تر ہیں حلقہ ہائے روز و شب
یہ کس مقام پر ہوں میں کہ بندشوں کی حد نہیں
ہے مرکز نگاہ پر چٹان سی کھڑی ہوئی
ادھر چٹان سے پرے وسیع تر ہے تیرگی
اسے پھلانگ بھی گیا تو اس طرف خبر نہیں
عدم خراب تر ملے نہ موت ہو نہ زندگی
ہزار بار چاہتا ہوں بندشوں کو توڑ دوں
مگر یہ آہنی رسن یہ حلقہ ہائے بندگی
لپٹ گئے ہیں پاؤں سے لہو میں جذب ہو گئے
میں نقش پائے عمر ہوں فریب خوردۂ خوشی
کوئی نیا افق نہیں جہاں نظر نہ آ سکیں
یہ زرد زرد صورتیں یہ ہڈیوں کے جوڑ سے
ہوا کے بازوؤں میں کاش اتنی تاب آ سکے
دکھا سکیں وہ عہد نو ہی زندگی کے موڑ سے