نفس نفس میں رواں اضطراب کا موسم
نفس نفس میں رواں اضطراب کا موسم
کہاں سے لاتا میں تازہ گلاب کا موسم
سفر میں دھوپ سے جلتا رہا بدن اپنا
تھکن سے چور رہا ماہتاب کا موسم
نگاہیں ڈھونڈھتی رہتی ہیں منزلیں اپنی
سکوت شب میں نہاں انقلاب کا موسم
رگوں میں دوڑتے پھرتے ہیں کیف کے نغمے
نماز شوق میں نمناک خواب کا موسم
فراز دار پہ لٹکی ہے زندگی آزادؔ
مری حیات بھی ٹھہری عذاب کا موسم