نئے مجرم ہیں پرانوں کی طرف دیکھتے ہیں
نئے مجرم ہیں پرانوں کی طرف دیکھتے ہیں
مقتدی اپنے اماموں کی طرف دیکھتے ہیں
خوف سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں بزدل فوجی
ہم ندامت سے شہیدوں کی طرف دیکھتے ہیں
اتنا پیارا ہے وہ چہرہ کہ نظر پڑتے ہی
لوگ ہاتھوں کی لکیروں کی طرف دیکھتے ہیں
ہجر راس آتا تو کیوں کرتے تجھے یاد میاں
دھوپ لگتی ہے تو چھاؤں کی طرف دیکھتے ہیں
کیا خسارا ہے انہیں بچوں کا گھر بسنے میں
ہم تعجب سے بزرگوں کی طرف دیکھتے ہیں
جن کو آسانی سے دیدار میسر ہے ترا
وہ کہاں باغ میں پھولوں کی طرف دیکھتے ہیں
پہلا موقع ہے محبت کی طرف داری کا
کبھی اس کو کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں