ندی ندی رن پڑتے ہیں جب سے ناؤ اتاری ہے

ندی ندی رن پڑتے ہیں جب سے ناؤ اتاری ہے
طوفانوں کے کس بل دیکھے اب ملاح کی باری ہے


نیند رگوں میں دوڑ رہی ہے پور پور بیداری ہے
جسم بہت حساس ہے لیکن دل جذبات سے عاری ہے


آوازوں کے پیکر زخمی لفظوں کے بت لہولہان
کرتے ہیں اظہار تفنن کہتے ہیں فن کاری ہے


منزل منزل پاؤں جما کر ہم بھی چلے تھے ہم سفرو
اکھڑی اکھڑی چال کا باعث راہ کی ناہمواری ہے


آنکھ تھکن نے کھولی ہے یا عزم سفر نے کروٹ لی
پر پھیلا کر بیٹھو گے یا اڑنے کی تیاری ہے


سچ کہتے ہو نیو میں اس کی ٹیڑھی کوئی اینٹ نہیں
آڑی ترچھی چھت کا باعث گھر کی کج دیواری ہے


کیا کہئے کیوں آج سروں سے زخموں کا بوجھ اٹھ نہ سکا
پتھر تھے لیکن ہلکے تھے پھول ہے لیکن بھاری ہے


بستی بستی قریہ قریہ کوسوں آنگن ہے نہ منڈیر
ذہن خرابہ دل ویرانہ گھر اعصاب پہ طاری ہے


ایک دیا اور اتنا روشن جیسے دہکتا سورج ہو
کہنے والے سچ کہتے ہیں رات بہت اندھیاری ہے