نہ وہ زمین میں تھا اور نہ آسمان میں تھا

نہ وہ زمین میں تھا اور نہ آسمان میں تھا
کبھی یقیں میں مرے تھا کبھی گمان میں تھا


میں ایک جال لئے عمر بھر بھٹکتا رہا
پرندہ دور بہت دور آسمان میں تھا


میں روز گھر سے نکلتا تھا ڈھونڈنے کے لئے
مکین بن کے وہ خود میرے ہی مکان میں تھا


میں کاش بند دریچے سے جھانک ہی لیتا
وہ میرے کمرے کے اندر ہی سائبان میں تھا


ادھورا پڑھ کے اسے لوگ رہ گئے ورنہ
ہمارا ذکر بھی کچھ اس کی داستان میں تھا


خطا خود اپنی نگاہوں کی تھی حسنؔ ورنہ
وہ میرے جسم میں تھا وہ تو میری جان میں تھا