انا کی آگ میں ہر لمحہ جل رہا ہوں میں
انا کی آگ میں ہر لمحہ جل رہا ہوں میں
غذا مری ہے یہی اس میں پل رہا ہوں میں
کبھی اس آگ کے سانچے میں ڈھل رہا ہوں میں
کبھی یہ برف کہ جس میں پگھل رہا ہوں میں
ہر ایک صبح افق سے نکل رہا ہوں میں
شفق میں اپنی ہر اک شام ڈھل رہا ہوں میں
ہر ایک موڑ پہ رستہ کچل رہا ہوں میں
کہ اپنے قدموں سے خود کو کچل رہا ہوں میں
میں اپنے زنداں میں قیدی بنا گیا خود کو
اور اپنے آپ سے بچ کر نکل رہا ہوں میں
کوئی تو بچہ حسنؔ ہے چھپا ہوا مجھ میں
کہ جس کی مانگ پہ ہر دم مچل رہا ہوں میں