نہ وہ خوشبو ہے گلوں میں نہ خلش خاروں میں
نہ وہ خوشبو ہے گلوں میں نہ خلش خاروں میں
اک ترے آتے ہی خاک اڑ گئی گلزاروں میں
چشم و ابرو و مژہ یار کی ہیں درپئے جاں
ایک دل گھر گیا ہے اتنے دل آزاروں میں
مرض ہجر سے بچتا نہیں بے داروئے وصل
ہے یہ آزار بڑا عشق کے آزاروں میں
تجھ کو زیبندہ ہے کیا سادگی اور رنگینی
ایک طرحدار ہے تو لاکھ طرح داروں میں
پھر گئی میری نظر میں مژہ و چشم تری
دیدۂ آبلہ دیکھا جو گھرا خاروں میں
بے گناہوں کی ہیں ابروۓ سیہ تشنہ خوں
نئے جوہر نظر آئے تری تلواروں میں
عاشق خال ملیح اپنا سمجھ کر بولے
کہ ہمارے یہ قدیمی ہیں نمک خواروں میں
ناوک آہ نے پیدا کی رہ آمد و رفت
سیکڑوں بن گئے در یار کی دیواروں میں
یوسف دل کو حسینوں سے سوا سمجھے عزیز
پھیر دیتا یہ ڈھنڈھورا کوئی بازاروں میں
نام رکھنے کی بھی اٹھ جائے اسے کیفیت
دم بھر آ بیٹھے جو واعظ کوئی مے خواروں میں
آمد فصل بہاری کا جو ہنگامہ ہے
غل ہے توبہ شکنی کا ترے مے خواروں میں
قلقؔ اتنی نہیں ہر وقت کوئی بچ کرتا
آپ بھی حضرت دل کے ہیں طرف داروں میں