بھری ہوئی ہے دل زار میں ہوائے قفس
بھری ہوئی ہے دل زار میں ہوائے قفس
چمن میں جی نہ لگے گا کہیں سوائے قفس
ترے اسیر ستم ہیں یہ مبتلائے قفس
کبھی نہ دیکھیں سوئے آشیاں سوائے قفس
گیا نہ خار اسیری کا دل سے تا دم مرگ
ہزار پھولوں کے صیاد نے بنائے قفس
اسیر ہو کے چھٹے فکر آب و دانہ سے
زیادہ کیوں نہ گلستاں سے ہم کو بھائے قفس
نہ پوچھ شوق امیری ہے کس قدر صیاد
وہ عندلیب ہوں دوں نقد جاں بہائے قفس
میں ہوں وہ بلبل محو اسیری بیداد
رہے گی روح بھی بعد فنا فدائے قفس
نہ بھولتے تھے کسی طرح آشیاں کی یاد
بہت دنوں میں ہوا ہوں میں آشنائے قفس
ستم بھی لطف سے صیاد کا نہیں خالی
کہ بند کرتا ہے پھولوں سے رخنہ ہائے قفس
قلقؔ نہ شاد ہوئے کچھ بھی ہم رہا ہو کر
چمن میں یاد بہت آئے آشنائے قفس