نہ وہ فریاد کا مطلب نہ منشائے فغاں سمجھے
نہ وہ فریاد کا مطلب نہ منشائے فغاں سمجھے
ہم آج اپنی شب غم کی غلط سامانیاں سمجھے
بڑی مشکل سے ان کا راز الفت ہو سکا پنہاں
بڑی مدت میں جا کر ہم مزاج راز داں سمجھے
اب آیا ہے تو بیٹھے چارہ گر خاموش بالیں پر
مری بے چینیاں دیکھے مری بے تابیاں سمجھے
پیام شادمانی کیا سمجھ کر دے کوئی اس کو
جو تیرے غم کو تکمیل نشاط دو جہاں سمجھے
میں اس دنیا میں اے سیمابؔ اک راز حقیقت تھا
سمجھنے کی طرح اہل جہاں مجھ کو کہاں سمجھے