نہ سوال جام نہ ذکر مے اسی بانکپن سے چلے گئے

نہ سوال جام نہ ذکر مے اسی بانکپن سے چلے گئے
ترا ظرف دیکھ کے تشنہ لب تری انجمن سے چلے گئے


کبھی تو نے سوچا بھی صبح نو کہ تمام رات گزار کے
جنہیں ڈس گئی تری روشنی وہ کہاں وطن سے چلے گئے


مجھے دھن کہ کاکل زندگی جو بکھر گئی ہے سنوار دوں
تمہیں غم کہ عشق کے تذکرے مرے شعر و فن سے چلے گئے


ترے گیسوؤں سے عزیز تھیں جنہیں کائنات کی الجھنیں
ترا غم سمیٹ کے روح میں تری انجمن سے چلے گئے


مرے دل کو قیصرؔ بے نوا کوئی غم شکست نہ دے سکا
کہ الجھ کے سیکڑوں حادثے مرے بانکپن سے چلے گئے