نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیں
نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیں
اب وہ پہلی سی تڑپ بھی دل مضطر میں نہیں
آپ کی بات کی وقعت نہیں اصلاً دل میں
آپ دم بھر میں تو ہاں کرتے ہیں دم بھر میں نہیں
مجھ کو باور تو جب آئے کہ کچھ امید بھی ہو
لکھ دیا خط میں وہ اس نے جو مقدر میں نہیں
میں نے پوچھا تھا کہو اور ستاؤ گے مجھے
منہ سے نکلی ہے ستم گر کے گھڑی بھر میں نہیں
آپ کیوں ذکر سے بیخودؔ کے خجل ہوتے ہیں
یہ تو وہ نام ہے جو آپ کے دفتر میں نہیں