نہ سارے عیب ہیں عیب اور ہنر ہنر بھی نہیں
نہ سارے عیب ہیں عیب اور ہنر ہنر بھی نہیں
کچھ احتیاط تو کیجے پر اس قدر بھی نہیں
تمہارے ہجر میں باندھا ہے وہ سماں ہم نے
کہ آنکھ ہم سے ملاتا ہے نوحہ گر بھی نہیں
نہیں ذرا بھی تو اس نے نہیں ملایا رخ
میں اس کو دیکھ رہا تھا یہ جان کر بھی نہیں
یہ ہم نے بھول کی آ پہنچے ان کی محفل میں
پر ان سے عرض تمنا تو بھول کر بھی نہیں
کوئی تو رنگ بکھیرے گی زندگی کی یہ دھوپ
اگر طویل نہیں ہے تو مختصر بھی نہیں
بھلا میں کیسے اسے دوست مان لوں فرحتؔ
جو اہل ظلم نہیں اور چارہ گر بھی نہیں