چھیڑ دیں گر قصۂ غم شام سے
چھیڑ دیں گر قصۂ غم شام سے
کہ رہیں گے صبح تک آرام سے
چاہیے ہم کو کہ بیداری رہے
آشنا ہوں حشر سے انجام سے
جو بلاتا تھا وہ شخص اب جا چکا
کام اپنا دیکھیے آرام سے
پا گئے ہم بے گناہی کی سزا
بچ گئے سو بار کے الزام سے
کٹ رہی ہے زندگی اب دشت میں
ہم کو کیا مطلب رہا حکام سے
کیا خبر تجھ کو کہ کتنا روئے ہم
چھوٹ کر صیاد تیرے دام سے
بزم میں فرحتؔ بڑے ناشاد تھے
منہ پے رونق آ گئی اک نام سے