نہ پوچھ دوست کی کتنا خراب ہوتا ہے
نہ پوچھ دوست کی کتنا خراب ہوتا ہے
بس اتنا جان زمانہ خراب ہوتا ہے
یہ عشق ہے نہ جو یہ دل کی اک خرابی ہے
خرابیوں کا نتیجہ خراب ہوتا ہے
عجب مزاج کی دنیا ہے یہ کہ اس کے لیے
خراب اچھا تو اچھا خراب ہوتا ہے
حضور چھوڑیئے یہ امن و ومن کی باتیں
سیاسی لوگوں کا دھندا خراب ہوتا ہے
کوئی کسی بھی سمے جھٹ سے توڑ سکتا ہے
امید سب سے لگانا خراب ہوتا ہے
شراب پیسہ انا خواب عشق یا کہ سخن
کسی بھی شے کا ہو نشہ خراب ہوتا ہے
اداس مت ہو میاں ہے یہ امتحان زیست
اس امتحان میں پرچہ خراب ہوتا ہے