نہ جب اپنا ہی غم اپنا نہ جب اپنی خوشی اپنی

نہ جب اپنا ہی غم اپنا نہ جب اپنی خوشی اپنی
تو پھر کیوں کر گزارے ہنس کے انساں زندگی اپنی


محبت راز بن کر رہ نہیں سکتی زمانے میں
کہ ہم نے داستان درد اوروں سے سنی اپنی


پریشاں خاطری کا لطف کچھ باقی نہیں رہتا
اگر حد سے گزر جائے پریشاں خاطری اپنی


اچانک ناخدا خوش ہو کے گھبرا سا گیا ورنہ
نہ ساحل پاس آتا اور نہ کشتی ڈوبتی اپنی


رضاؔ ترک تمنا اس لئے مجھ کو گوارا ہے
کہ اب دیکھی نہیں جاتی کسی سے بے کسی اپنی