نہ جانے کس نے پلٹ کر یہ دی صدا مجھ کو
نہ جانے کس نے پلٹ کر یہ دی صدا مجھ کو
سجھائی دیتا نہیں آگے راستہ مجھ کو
میں اس کے بارے میں سوچوں غرض نہیں لیکن
وہ دیکھنے میں تو اچھا بھلا لگا مجھ کو
ستم کی ناگ پھنی ڈس رہی تھی تنہائی
ترے بغیر اکیلے میں ڈر لگا مجھ کو
اسی کے لمس کی خوشبو بسی ہے سانسوں میں
اے کاش وہ بھی تو اپنے میں ڈھونڈھتا مجھ کو
کسی بھی حال نہ چھوٹے یہ صبر کا دامن
خدائے پاک عطا کر وہ حوصلہ مجھ کو
وہ جس کو جینے کا میں نے شعور بخشا تھا
دکھا رہا ہے وہی شخص آئینہ مجھ کو
ہر ایک سمت قہر ڈھا رہے ہیں ابن یزید
لگے ہے ہند بھی میدان کربلا مجھ کو
میں اس کے واسطے سب کچھ نثار کر دیتا
اگر وہ پیار سے ارشدؔ پکارتا مجھ کو