اندھیرا رات کا اس وقت بوڑھا ہونے والا ہے

اندھیرا رات کا اس وقت بوڑھا ہونے والا ہے
دریچے کھول کر دیکھو سویرا ہونے والا ہے


بکھیرا ہے فلک نے زعفرانی رنگ دھرتی پر
درختوں کا ہر اک پتا سنہرا ہونے والا ہے


وہ اپنی دسترس سے اب مجھے آزاد کر دے گا
امیر شہر کے ہاتھوں اجالا ہونے والا ہے


حویلی کا ہر اک گوشہ گلابوں سے مہکتا ہے
کسی مظلوم کی آہوں کا سودا ہونے والا ہے


پرندے گھونسلوں کی لاٹ میں جو سہمے بیٹھے ہیں
کسی طوفاں کی آمد ہے اندھیرا ہونے والا ہے


وہ میری شخصیت پر اب کرے گا تبصرہ شاید
مرے افکار کے رنگوں کا چرچا ہونے والا ہے


بدن میں خون کی اک بوند بھی باقی نہیں ارشدؔ
مری صف میں رقیبوں کا اضافہ ہونے والا ہے