نہ ابتدا ہوں کسی کی نہ انتہا ہوں میں
نہ ابتدا ہوں کسی کی نہ انتہا ہوں میں
تعینات کی حد سے گزر گیا ہوں میں
جو نا مراد ازل ہے وہ التجا ہوں میں
اثر سے دور جو رہتی ہے وہ دعا ہوں میں
ترے جمال کا آئینہ بن گیا ہوں میں
ہزار پردوں میں چھپ کر چمک رہا ہوں میں
الٰہی کس کی نگاہوں سے گر گیا ہوں میں
ہر ایک آنکھ کو حسرت سے تک رہا ہوں میں
ترا کرم تو خدا جانے کیا ستم ہوگا
کہ جب ستم پہ ترے جان دے رہا ہوں میں
نہ باغ سے مجھے مطلب نہ باغ والوں سے
بھٹک کے دشت سے گلشن میں آ گیا ہوں میں
تجھے خبر بھی ہے او مڑ کے دیکھنے والے
تری نگاہ پہ کیا کیا لٹا رہا ہوں میں
مری نظر سے ٹپکتی ہے آرزو دل کی
صدائے قلب ہوں خاموش التجا ہوں میں
مدد کا وقت ہے اے ناخدائے کشتئ دل
تجلیات کی موجوں میں گھر گیا ہوں میں
ہر ایک آنکھ مجھے تک رہی ہے حیرت سے
منیرؔ کس کی نگاہوں کا آئنہ ہوں میں