جب برق پاش جلوۂ جانانہ بن گیا
جب برق پاش جلوۂ جانانہ بن گیا
فرزانہ تھا وہی کہ جو دیوانہ بن گیا
شوق نمود نے اسے رکھا نہ عرش پر
کعبہ کہیں بنا کہیں بت خانہ بن گیا
افتاد گئی قلب کا اللہ رے عروج
محفل میں اس کی ٹوٹ کے پیمانہ بن گیا
تکمیل عشق حسن کو بیتاب کر گئی
خود ساز شمع سوزش پروانہ بن گیا
اس دل نے اتنی کی ہے یگانوں کی جستجو
اپنی نظر میں آپ ہی بیگانہ بن گیا
تصویر انتظار بنا شوق دل تو کیا
کمبخت اس کا وعدۂ ایفا نہ بن گیا
ہنگامۂ نزول تمنائے دل نہ پوچھ
آباد ہو کے نازش ویرانہ بن گیا
جو نالہ آج تک نہ ہوا لب سے آشنا
دنیا میں کیوں منیرؔ وہ افسانہ بن گیا