نہ ڈھلتی شام نہ ٹھنڈی سحر میں رکھا ہے
نہ ڈھلتی شام نہ ٹھنڈی سحر میں رکھا ہے
سفر کا لطف کڑی دوپہر میں رکھا ہے
جدائیوں کے مناظر ہیں اب بھی یادوں میں
بچھڑتے وقت کا لمحہ نظر میں رکھا ہے
بچا بچا کے گھنی چھاؤں کو تری خاطر
تمام عمر بدن کے شجر میں رکھا ہے
تمہارے نام کو لکھا ہے پیکر گل پر
تمہاری یاد کو خوشبو کے گھر میں رکھا ہے
کبھی سکون سے جینے نہیں دیا اس نے
وہ ایک عشق کا سودا جو سر میں رکھا ہے
پھر ایک بار لٹانا ہے کارواں دل کا
قدم کو پھر سے تری رہ گزر میں رکھا ہے
خمارؔ کس نے کیا پھر سے در بدر مجھ کو
یہ کس نے مجھ کو مسلسل سفر میں رکھا ہے