مورتی

میں اکثر سوچتا ہوں
کیا کہوں میں کیا لکھوں تجھ کو
ہے کوئی اپسرا تو یا کہ پھر ہے روپ کی دیوی
تو جو بھی ہے
حقیقت میں ہے اک شہکار قدرت کا
کئی صدیاں سفر کر کے
تخیل یوں نکھرتا ہے
یوں ہی پل میں ترے جیسی کوئی مورت نہیں بنتی
چنبیلی موتیا نرگس گل لالہ کنول صندل
سبھی کا رس نچوڑا اور ملا کر بھربھری مٹی
گھوما کر چاک کا پہیہ
تراشا اک حسیں پیکر
تبھی پھولوں کی خوشبو سے
مہکتا ہے بدن تیرا
لبوں کی پنکھڑی اس نے
بنائی ہے گلابوں سے
یہ کالی ریشمی زلفیں
ہزاروں سال تک ریشم
جمع کر کے بنی اس نے
کتر کر پنکھ موروں کے
تری پلکیں تنی اس نے
پھر اس کے بعد کن کہہ کر
مکمل کر دیا تجھ کو