منتظر بیٹھے ہوئے ہیں شام سے

منتظر بیٹھے ہوئے ہیں شام سے
اور ہم واقف بھی ہیں انجام سے


مل گئے جب تم تو کیسا کام پھر
گھر سے ہم نکلے تھے یوں تو کام سے


آ مری گہرائیوں میں ڈوب جا
کہہ رہی ہے یہ صراحی جام سے


بھر گیا کانٹوں سے دامن پیار میں
دل مرا واقف نہ تھا انجام سے


رفتہ رفتہ صبح تک سب بجھ گئے
وہ دئے جو جل اٹھے تھے شام سے


لے گئے وہ اک نظر میں نقد دل
لٹنے والے لٹ گئے آرام سے


کیوں نہ ہو مقبول رہبرؔ میرے شعر
لکھ رہا ہوں ہٹ کے راہ عام سے