منور اور مبہم استعارے دیکھ لیتا ہوں
منور اور مبہم استعارے دیکھ لیتا ہوں
میں سوتے جاگتے دل کش نظارے دیکھ لیتا ہوں
میں چشم نارسا سے کھینچتا رہتا ہوں تصویریں
کوئی ساعت ہو سورج چاند تارے دیکھ لیتا ہوں
میں بچوں کی نظر سے دیکھتا ہوں چاند میں تھالی
مگر چشم ہنر سے ماہ پارے دیکھ لیتا ہوں
اکیلا ڈھونڈتا پھرتا ہوں رنج ناشناسائی
کہ جینے کے لیے ممکن سہارے دیکھ لیتا ہوں
سہم کر بیٹھ جاتا ہوں گلی میں شور گریہ سے
نکلنا ہے تو پھر امکان سارے دیکھ لیتا ہوں
سڑک کی جگمگاتی روشنی میں خوف لگتا ہے
گزرتا ہوں تو موسم کے اشارے دیکھ لیتا ہوں
محبت بھی ضرورت پیش بینی بھی ضرورت ہے
میں کار دوستی میں سب خسارے دیکھ لیتا ہوں