مجھے دیر سے تعلق نہ حرم سے آشنائی
مجھے دیر سے تعلق نہ حرم سے آشنائی
کہیں قشقۂ نمائش کہیں سجدۂ ریائی
کسی جیب دل میں دیکھی نہ متاع عشق میں نے
مرے شہر میں لٹا دو مرا درد بے نوائی
مرے دل کے آئینے کو نہ شکستہ کر خدارا
کہ اداس ہو نہ جائے ترا حسن خودنمائی
کوئی کب پہنچ سکا ہے ترے غم کی سرحدوں تک
وہی کارواں کی منزل جو مری شکستہ پائی
مرے حرف صد تمنا سے کھلا تو کوئی غنچہ
میں نثار یک تبسم کہ ہوئی تو لب کشائی
مری غربت سحر کا نہ تھکا غرور ورنہ
میں چمن سے مانگ لیتا کوئی شام بے حیائی
نہ شمیمؔ ناز کرنا کہ عطیۂ جنوں ہے
یہ ترا ترنم غم یہ تری غزل سرائی