مجھ کو مجبور سرکشی کہیے
مجھ کو مجبور سرکشی کہیے
آپ اندھیرے کو روشنی کہیے
ان سے بچھڑا تو اس عذاب میں ہوں
موت کہئے کہ زندگی کہیے
سر ساحل بھی لوگ پیاسے ہیں
اس کو آشوب تشنگی کہیے
کیوں تجاہل کو عارفانہ کہوں
میرے چہرے کو اجنبی کہیے
چار دن کی ہے چاندنی لیکن
چاندنی ہے تو چاندنی کہیے
موت بھی زندگی کا اک رخ ہے
اس کو معیار آگہی کہیے
غم سے ہم بے مزا نہیں ہوتے
لذت غم کو چاشنی کہیے
مجھ کو بخشی ہے فکر ارض و سما
دوست کی بندہ پروری کہیے
جلتا بجھتا یہ کرمک شب تاب
اس کو پرکار سادگی کہیے
مجھ کو مڑ مڑ کے دیکھنے والے
کیا اسے طرز بے رخی کہیے
دھوپ میں ساتھ ساتھ سایہ ہے
روشنی میں بھی تیرگی کہیے
رہبری بھی ہے ہمرکاب عروج
اس کو فیضان خود روی کہیے