مجھ کو خاک در مے خانہ بنایا ہوتا

مجھ کو خاک در مے خانہ بنایا ہوتا
پھر اسی خاک سے پیمانہ بنایا ہوتا


جلوہ گر حسن مجازی میں حقیقت ہوتی
کعبۂ دل کو صنم خانہ بنایا ہوتا


نہ مجھے رنگ چمن سے کوئی مطلب ہوتا
صورت سبزۂ بیگانہ بنایا ہوتا


آپ بیتی جو سناتا ہوں تو کہہ دیتے ہیں
اس سے بہتر کوئی افسانہ بنایا ہوتا


مے کشوں کے جو مقدر میں نہ تھے یہ دانے
نخل انگور کو بے دانہ بنایا ہوتا


عمر بھر خانہ خمار میں سر خوش رہتے
زندگی کا یہی پیمانہ بنایا ہوتا


کفر و ایماں میں نہ رہتی یہ کشاکش کیفیؔ
کعبہ و دیر کو مے خانہ بنایا ہوتا