محافظ ہو چمن کے تم تو پھر فکر و نظر رکھ لو

محافظ ہو چمن کے تم تو پھر فکر و نظر رکھ لو
لہو کی گر ضرورت ہو تو کچھ خون جگر رکھ لو


حصول آرزو میں منزلیں دشوار ہوتی ہیں
اگر صحرا سے گزرو تو سمندر کی خبر رکھ لو


تن نازک اور اس پہ یوں خرام ناز سے چلنا
یہ شہر سنگ ہے پتھر سے بچنے کا ہنر رکھ لو


کسی کی ذات پہ انگلی اٹھانے سے ذرا پہلے
ذرا اک آئنہ شفاف بھی زیر نظر رکھ لو


ہوس ہر گام پہ مد مقابل ہوگی اے آتش
بطور رہنما عقل و خرد ہر گام پہ رکھ لو