مدت ہوئی عورت ہوئے
مجھ سے سہیلی نے کہا
ممتاز ایسا لکھتی جا
جس میں ہوں کچھ چوڑیوں
جھنکار کی باتیں
کچھ تذکرے ہوں چنریوں کے
اظہار کی باتیں
اڑتے سنہری آنچلوں میں
موتیوں کی سی لڑی
پہلی وہ شیطانی میری
پہلی وہ جو میری ہنسی
بالی عمر کی دل کشی
وہ بچپنے کی شوخیاں
خوابوں میں خواہش کے سراب
دھڑکن کی وہ سرگوشیاں
گوٹا کناری ٹانکتے
انگلیوں میں سوئی کی چبھن
دانتوں میں انگلی داب کر
ہوتی شروع پھر سے لگن
پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب
یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
اب بھی کیا آباد ہے
میں نے کہا میری سکھی
دنیا کیا تو نے نہ تکی
مصروف اتنی زندگی
کہ چوڑیاں پہنی نہیں
جو چنریاں رنگین تھیں
وہ دھوپ لے کر اڑ گئیں
میری عمر کی تتلیاں
اب اور جانب مڑ گئیں
اب دوپٹوں پر کبھی نہ
گوٹا موتی ٹانکتی ہوں
سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب
دل کو اپنے ٹانکتی ہوں
خوشبوؤں کے دیس سے
میں دور اتنی آ گئی
جینے کی خاطر
مرد سا
انداز میں اپنا گئی
رشتوں کو ناطوں کو نبھاتے
فرض ادا کرتے ہوئے
تو نے جو چونکایا لگا
مدت ہوئی عورت ہوئے