مسافتوں کے سراب کا المیہ

درد کے شہر سے
جب چلے قافلے
ابتلاؤں کی پونجی سمیٹے ہوئے
حسرتوں کے نگینے دمکتے تھے تلوار پلکوں پہ
زخموں کے گلزار تھے دل کے آنگن میں
اور مشعلیں ذہن میں جل رہی تھیں کئی
کچھ الاؤ کہ آنکھوں میں جلتے رہے اور بجھتے رہے
آگہی جو تذبذب کی دلدل میں تھی دم بخود
شوق کا ہاتھ پکڑے نکل آئی تھی کامراں
پاؤں میں آبلے
ذہن میں بجلیاں
جب رکی خوں کی بارش ہواؤں کے پر ہول شعلے بھی مدھم ہوئے اور دھوئیں کی کثافت چھٹی
تب کہیں
سکھ کے گاؤں پہ نظروں کی کرنیں پڑیں
جس میں تمکین غم عزم کی رفعتوں سے گلے مل کے تعمیر آسودگی کر رہی تھی
درد کے چاند چمکے تو سوچیں جلا پا گئیں
دل کے زخموں نے جذبوں کے پھولوں کو اک لذت تازگی دی
تو ہم
اپنی ساری تھکن کلفتیں بھول کر شام ہونے سے پہلے
سرخ رو آرزوؤں کے سہرے سجائے
گھر کے آنگن میں پہنچے تو ماں کی نگاہوں سے شفقت کی آیات کرنوں کی صورت اترنے لگی تھیں


ہم نے ماں کے قدم چوم کر خود کو پایا
تو اک عالم نو جنم لے رہا تھا
جہاں سانولے موسموں کی سلونی رتوں کی بشارت تھی
روشن کھلی دھوپ تھی اور تازہ ہوائیں نئی فصل گل کی پیمبر بنی تھیں
کہ پھر چند لوگوں نے
ماں کی ردا نوچ کر منہ پہ سورج کے ماری
تو ماں نے بڑے کرب سے ہم کو دیکھا
مگر ہم کہ جو گرم خوں کے بھی وارث تھے سچ کی گواہی تھے اور حرمتوں کے امیں تھے
عجب طور سے سرنگوں اور ساکت کھڑے تھے
خدا جانے کیا سوچتے تھے