مولانا مودودی کی دور اندیشی

شاہ فیصل مرحوم کو ابا جان (سید ابوالاعلیٰ مودودی) نے ایک اہم مشورہ دیا تھا، میں سوچتی ہوں کہ اگر شاہ فیصل اس پر عمل کرلیتے تو آج عالم اسلام کے حالات کچھ مختلف ہوتے.

ابا جان (سید مودودی) نے شاہ فیصل سے بالمشافہ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا :"جس طرح امریکہ نے ڈالر کے بل پر ساری دنیا کے اعلیٰ ترین دماغ کھینچ کر اپنے ملک میں جمع کرلیے ہیں، اور وہ ملک صرف 500 برس پہلے دریافت ہوا تھا، اسے بے مثال ترقی دی ہے، اسی طرح آپ ریال کے بل پر، جن کی آپ کے پاس کوئی کمی نہیں ہے اور نہ رقبے کی آپ کے ملک میں کمی ہے، عالم اسلام کے اعلیٰ ترین دماغ کھینچ کر اپنے ملک میں جمع کرسکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ایسے عالی دماغ ڈاکٹروں، سائنس دانوں، ماہرین سماجی علوم اور بلند پایہ محققین کو آپ سعودی عرب کی شہریت اور بنیادی حقوق بھی دیجیے۔ پھر آپ دیکھیے گا کہ سعودی عرب کو سماجی، علمی، صنعتی، معاشی، دفاعی امور، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کس قدر عروج نصیب ہوتا ہے، اور یہ عروج صرف سعودی عرب کا نہیں ہوگا بلکہ پورے عالم اسلام کا عروج ہوگا"۔

جواب میں شاہ فیصل نے فرمایا :"میں ریال کے بل پر سارے عالم اسلام کے بہترین دماغ تو سعودی عرب میں جمع کرلوں اور انہیں شہریت سمیت حقوق بھی دے دوں لیکن پھر میرے ہم وطن بدو بکریاں لے کر اور اونٹوں میں سوار ہوکر واپس خیموں میں چلے جائیں گے اور صحراؤں میں ایسے گم ہوں گے کہ ان کا نشان کبھی کسی کو نہیں ملے گا"۔

افسوس کہ شاہ فیصل مرحوم کے بعد بھی خلیجی حکمرانوں نے زیادہ دور اندیشی سے کام نہ لیا۔ انجام کار تیل اور ریال کی ساری دولت بڑی بڑی مہنگی گاڑیوں، پرتعیش محلات پر خرچ یا مغرب کے بینکوں میں غرق ہوکر رہ گئی ہے۔ دفاع کا ذمہ دار امریکہ اور معیشت کی باگ ڈور مغربی ماہرین کے ہاتھ میں ہے

یہ صرف اس لیے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہم عصر مسلمان اہل اقتدار کے دل اتنے چھوٹے، ظرف اتنے تنگ اور دور اندیشی سے عاری ہیں کہ وہ اپنے سوا کسی کو نہیں دیکھ سکتے.

ابا جان مرحوم (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ) اکثر کہا کرتے تھے کہ دین اس وقت تک غالب نہیں آسکتا جب تک یہ امت صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وہ صفت اپنے اندر پیدا نہیں کرے گی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور جس کی پیش گوئی تورات میں وارد ہوئی ہے، یعنی : "(اور جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، وہ) کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں. تم جب دیکھو گے، انہیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے. سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں، جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں. (سورۃ الفتح).

کم و بیش مسلم ممالک کے سربراہان کا حال یہ ہے کہ کفار کو دیکھتے ہیں اور ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور ان کے آگے پیچھے بچھے چلے جاتے ہیں اور جب مسلمانوں سے ملاقات ہوتی ہے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔

ماخوذ از: ہمارے والدین شجرہائے سایہ دار، اشاعت اول 2005، سیدہ حمیرا مودودی