محبت وہ مرض ہے جس کا چارہ ہو نہیں سکتا
محبت وہ مرض ہے جس کا چارہ ہو نہیں سکتا
جگر کا ہو کہ دل کا زخم اچھا ہو نہیں سکتا
وہ نالہ کوئی نالہ ہے جو کم ہو موج طوفاں سے
وہ آنسو کوئی آنسو ہے جو دریا ہو نہیں سکتا
تماشا ہے کہ ہم اس کو مسیحا دم سمجھتے ہیں
ہمارے درد کا جس سے مداوا ہو نہیں سکتا
مجھے فریاد پر مائل نہ کر اے جوش ناکامی
زمانے بھر میں دل کا راز رسوا ہو نہیں سکتا
عجب کیا ہے جو خاموشی ہی شرح آرزو کر دے
مرے لب سے تو اظہار تمنا ہو نہیں سکتا
مبارک ہو تجھی کو یہ خیالستان اے واعظ
تری دنیا میں رندوں کا گزارہ ہو نہیں سکتا
تماشا ہو گیا ہے تیرے جلووں کا تماشائی
کوئی اس شان سے محو تماشا ہو نہیں سکتا
بدل سکتے ہو تم بگڑی ہوئی قسمت زمانے کی
تمہاری اک نگاہ ناز سے کیا ہو نہیں سکتا