محبت ہے تو پھر اندازۂ شوق وفا کیوں ہو
محبت ہے تو پھر اندازۂ شوق وفا کیوں ہو
شکایت درد کی کیوں ہو جفاؤں کا گلہ کیوں ہو
کسی کے کان تک پہنچے وہ میری التجا کیوں ہو
بر آنا جس کا ممکن ہو وہ میرا مدعا کیوں ہو
یہ راہ عشق ہے اے دل مآل اندیشیاں کیسی
جنوں ہے دستگیر اپنا کوئی زنجیر پا کیوں ہو
حیات آرزو پروردۂ آغوش طوفاں ہے
جسے ہو فکر ساحل کی وہ میرا ناخدا کیوں ہو
نہ یہ فریاد ہوگی پھر نہ یہ آہیں نہ یہ نالے
دل ناداں محبت میں حقیقت آشنا کیوں ہو
وہ نظریں خاک میں جن کو ملانا بھی نہیں آتا
انہیں نظروں سے وابستہ ہمارا مدعا کیوں ہو
حدود شش جہت سے ماورا جب اس کے جلوے ہیں
تو پرواز محبت تا بہ حد دو سرا کیوں ہو
خدا کے یاد آنے کا بڑا اچھا ذریعہ ہے
شناسائے کرم وہ بانی جور و جفا کیوں ہو
محیط عرش و کرسی جب خدا کا ظل رحمت ہے
منیرؔ اپنی خطا کوشی کی کوئی انتہا کیوں ہو