محبت حاصل دنیا و دیں ہے
محبت حاصل دنیا و دیں ہے
محبت روح ارباب یقیں ہے
نظر میں جھوم اٹھتی ہیں بہاریں
کسی کی یاد بھی کتنی حسیں ہے
تصدق ہو رہے ہیں ماہ و انجم
نگاہوں میں وہی زہرہ جبیں ہے
کہاں ممکن ہے اس کو بھول جانا
کہ ہر اک نقش اس کا دل نشیں ہے
جہاں چاہوں وہیں محفل سجا لوں
مری ہر اک نظر حسن آفریں ہے
وہی وہ ہیں جدھر بھی دیکھتا ہوں
بس اب ان کے سوا کوئی نہیں ہے
زمانہ ہو گیا اس اک نظر کو
خلش سی آج تک دل کے قریں ہے
ہوا ہوں مدتوں سے خود فراموش
مگر یہ دل تجھے بھولا نہیں ہے
سہارا مل گیا جینے کا مضطرؔ
مجھے ان کی محبت کا یقیں ہے