مزاج نغمہ و شعر و شراب پیدا کر

مزاج نغمہ و شعر و شراب پیدا کر
حیات عشق میں کچھ آب و تاب پیدا کر


نظر کو خیرگئ شوق بے پناہ ملے
ہر ایک ذرے سے وہ آفتاب پیدا کر


شکست خواب کے با وصف بند ہیں آنکھیں
پھر ایک بار تماشائے خواب پیدا کر


یہ بے نیازئ تزئین آئنہ کب تک
کبھی کبھی تو خود اپنا جواب پیدا کر


ہر ایک ذرہ ہے معمورۂ جمال حبیب
دل حزیں نگۂ کامیاب پیدا کر


دل و نگاہ کو دھوکے بھی راس آئے ہیں
وفور تشنہ لبی میں سراب پیدا کر


نہ کر شکایت دوراں نہ بن حریف زماں
مصیبتوں کا کوئی سد باب پیدا کر


پہنچ بلند مقامات شعر و نغمہ تک
ادب میں ایک دل آویز باب پیدا کر


غرض تو یہ ہے ترا مرکز نگاہ رہوں
سکون دل نہ سہی اضطراب پیدا کر


رئیسؔ تجھ کو تو مرنے کی بھی نہیں فرصت
کہا تھا کس نے کہ ایسے عذاب پیدا کر