مری نوا مری تدبیر تک نہیں پہنچی

مری نوا مری تدبیر تک نہیں پہنچی
یہ میرے خواب کی تعبیر تک نہیں پہنچی


ترے جمال کا پرتو عزیز ہے لیکن
تری ادا تری تصویر تک نہیں پہنچی


یہی بہت ہے کہ ہم منزلوں سے ہو آئے
ہماری کج روی تاخیر تک نہیں پہنچی


کماں سے کیسی شکایت کہ وہ ہے نا بینا
ہدف کی بے نگہی تیر تک نہیں پہنچی


ہمارے دل سے اٹھی حوصلہ شکن آواز
مگر یہ پاؤں کی زنجیر تک نہیں پہنچی


سسک رہی ہے جو دہلیز خانہ میں دیمک
ہزار شکر کہ شہتیر تک نہیں پہنچی


ہوا میں اٹھتے رہے ہاتھ بے سبب محسنؔ
چمک دعاؤں کی تاثیر تک نہیں پہنچی