مری ہی بات سنتی ہے مجھی سے بات کرتی ہے

مری ہی بات سنتی ہے مجھی سے بات کرتی ہے
کہاں تنہائی گھر کی اب کسی سے بات کرتی ہے


ہمیشہ اس کی باتوں میں اندھیروں کا وہی رونا
یہ شب جب بھی دیئے کی روشنی سے بات کرتی ہے


میں جب مایوس ہو کر راستے میں بیٹھ جاتا ہوں
تو ہر منزل مری آوارگی سے بات کرتی ہے


سکوت شب میں جب سارے مسافر سوئے ہوتے ہیں
انہیں لمحات میں کشتی ندی سے بات کرتی ہے


کبھی چپ چاپ تاریکی کی چادر اوڑھ لیتی ہے
کبھی وہ جھیل شب بھر چاندنی سے بات کرتی ہے


دیار ذات میں اس وقت جب میں بھی نہیں ہوتا
کوئی آواز میری خامشی سے بات کرتی ہے


ہمیشہ اس کے چہرے پر عجب سا خوف رہتا ہے
کبھی جب موت میری زندگی سے بات کرتی ہے