لاکھ ٹکراتے پھریں ہم سر در و دیوار سے
لاکھ ٹکراتے پھریں ہم سر در و دیوار سے
جی کہ بھرتا ہی نہیں ہے لذت آزار سے
کچھ تو گھر والوں نے ہم کو کر دیا معذور سا
اور کچھ ہم فطرتاً اکتا گئے گھر بار سے
یک بیک ایسی بھی سب پر کیا قیامت آ گئی
شہر کے سب لوگ کیوں لگنے لگے بیمار سے
تیرے سپنوں کی وہ دنیا کیا ہوئی اس کو بھی دیکھ
ہو چکی ہیں نم بہت آنکھیں اٹھا اخبار سے
منتظر تھا ڈوبنے والے کا کوئی تو ضرور
اک صدا آئی تھی اس کے نام دریا پار سے
سب سے اچھا تو یہی ''غالب'' ترا جام سفال
ٹوٹ بھی جائے تو پھر لے آئیے بازار سے