مرے بچے جوان ہو گئے ہیں

جو میری گود میں پل کر جوان ہو گئے ہیں
مرے سفینے کے اب بادبان ہو گئے ہیں
وہ جن پہ نیل ابھرتے تھے ہاتھ لگتے ہی
وہ پھول جیسے بدن اب چٹان ہو گئے ہیں
وہ جن کو سینچا تھا میں نے اب ان کے سائے میں ہوں
کہ اب وہ ننھے شجر سائبان ہو گئے ہیں
وہ دیکھ بھال میں جن کی گزر گئی مری عمر
خدا کا شکر مرے پاسبان ہو گئے ہیں
جو چند پھول مہکتے تھے میرے آنگن میں
خوشا نصیب وہ خود گلستاں ہو گئے ہیں
نہیں جھکے ہوئے شانوں کا اب مجھے کوئی غم
خدا رکھے مرے بچے جوان ہو گئے ہیں
نہ پڑنا اپنے پرائے میں تم مرے بچو
تباہ اس سے بہت خاندان ہو گئے ہیں
وہ جن کی فکر میں رہتی تھی میں وفاؔ بے چین
غم و خوشی کے مرے ترجمان ہو گئے ہیں