مرا قاتل تو میرا آشنا ہے

مرا قاتل تو میرا آشنا ہے
مسلسل درد میں دل مبتلا ہے


نہ اب کے ہو گئی شام غریباں
نہ جانے کب مرا خیمہ جلا ہے


بظاہر زندگی تو کٹ رہی ہے
بسر کرنی عجب سا مسئلہ ہے


میری پلکوں پہ ہے بے فیض دریا
مگر چہرا تو دشت کربلا ہے


بچھڑتے وقت مجھ پر ہنسنے والا
ابھی کس غم میں اتنا رو رہا ہے


تمہارے ساتھ رہنا تھا مقدر
مگر یوں دور ہونا سانحہ ہے


جواں لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں
مری بستی تو مثل کربلا ہے