ملتا ہے قید غم میں بھی لطف فضاۓ باغ
ملتا ہے قید غم میں بھی لطف فضاۓ باغ
چاک قفس سے آتی ہے فرفر ہوائے باغ
روکے زباں نہ بلبل بستاں سراۓ باغ
دہرائے پھر مرے سے کہو ماجرائے باغ
سنتے ہیں اب کی آئی ہے کس دھوم سے بہار
کیا جی پھڑک رہا ہے قفس میں برائے باغ
کن چہچہوں میں اپنی بسر ہوتی تھی مدام
اے ہم صفیر کیا ہو بیاں ماجرائے باغ
گزرے نسیم ادھر سے تو پوچھیں گے ہم اسیر
ہم کو بھی یاد کرتے ہیں نغمہ سرائے باغ
اے ہم صفیر اب تو چلے قید ہو کے ہم
تقدیر دیکھیے ہمیں پھر کب دکھائے باغ
مجھ مست کا چمن میں شناسا کوئی نہیں
اک دخت رز قدیم سے ہے آشنائے باغ
پاتے ہیں سرو گل میں تری شکل قد و رخ
فرقت میں جی کہیں نہیں لگتا سوائے باغ
اس دن سے اپنے بلبل دل کو ہے عشق گل
گلزار دہر میں ہوئی جیسے بنائے باغ
ملتا نہیں ہے نخل تمنا سے یاں ثمر
پھر کوئی کس امید پہ اس جا لگائے باغ
نرگس کی ہے وہ آنکھ نہ گل کا وہ رنگ ہے
چلتی ہے اب کی سال مخالف ہوائے باغ
اب چہچہے ہیں وہ نہ نوا سنجیاں ہیں وہ
شاید گزر گیا قلقؔ خوش نوائے باغ