میری پہلی نظم
سدا کی مانند اس برس بھی
تمام کوؤں کے جھنڈ کوئل مکٹ پہ قابض
نشے میں پاگل پھدک رہے ہیں
فتح پہ اپنی اچھل رہے ہیں
نراش کوئل
کہ جس کے سینے میں
ہوک بن کر
اداس کوئل
کہ جس کی شہ رگ پہ
کوک بن کر
ہزار نغمے دھڑک رہے ہیں
وہ آشیانے میں بن کے گونگی
پروں میں ننھی سریلی دل کش دھنیں سمیٹے
سپاٹ نیلے فلک کو چپ چاپ دیکھتی ہے
جو اس برس بھی
یہ کہہ رہا ہے
خموش رہنا
کبھی نہ کہنا
کہ جب بھی کوئل کی کوک گونجی
یہ آپ اپنا مکٹ سیانوں سے چھین لے گی
کہ جیتے جی کیا تری چہک کو
ترا گھروندا
تو جس کا محور بنی ہوئی ہے
تو جس میں زندہ چنی ہوئی ہے
کہ جس کا فرش اور چھت بھی تو ہی
جس کی دیوار و در بھی تو ہی
تو ہی ہے جس گھر کا رنگ و روغن
وہی ترا تیری جاں گھروندا
تجھے یا تری نوا کو
زندہ رہا کرے گا
رہا ہوئی تو گھروندا کیا یوں سجا رہے گا