میری آنکھوں میں دمکتا ہوا چہرہ اس کا

میری آنکھوں میں دمکتا ہوا چہرہ اس کا
کب سے جزدان میں رکھا ہے صحیفہ اس کا


وہ پرندہ جسے جنگل کی ہوا بھی نہ لگی
لوگ ہر شاخ سے دکھلائیں گے رشتہ اس کا


صاف بچ جاتے مرے ہاتھ قلم ہونے سے
کاش میں نے بھی لکھا ہوتا قصیدہ اس کا


کون ہے جو اسے کہتا ہے اندھیروں کا نقیب
شام ہوتی ہے تو کھل اٹھتا ہے چہرہ اس کا


ہنس رہا ہوگا کسی شاخ کے پیچھے سورج
پیڑ سے چھین رہا ہے کوئی سایہ اس کا