مینٹل ہاسپٹل
آوارہ کتوں کی ہڑبونگ نے بستی میں دہشت پھیلا رکھی تھی ۔ یہ کتے کسی بھی گلی ، کسی بھی راستے پر بلاخوف انسانوں پر حملہ کر دیتے۔ دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی آدمی ان کی کاٹ سے ضرور زخمی ہو جاتا تھا۔ بچوں کی نفسیات آوارہ کتوں کے خوف سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہورہی تھی۔ یہ خوف یو نہی نہیں تھا ، چونکہ پچھلے کئی برسوں سے درجنوں بچے ان کتوں کے کاٹنے سے مرگئے تھے۔ لوگ میونسپلٹی والوں کو کئی بار اس مصیبت سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ بھی میونسپلٹی کی گاڑی لے کر آجاتے اور ہاتھ لگے آٹھ دس کتوں کو لے جا کر کسی ویرانے میں ڈال جاتے ۔پھر چند روز کے بعد پکڑ ے گئے کتے دوبارہ بستی میں نمودار ہوتے اور اس انداز سے بستی کا دورہ کر جاتے جیسے کہ کہنہ مشق چور کوپولیس والوں نے چوری کے الزام سے باعزت رہا کیا ہو۔ برف پڑنے کے ساتھ ہی پتہ نہیں اس بے زبان مخلوق کی فطرت پرسردی کا کون سا زہریلا اثر پڑ جاتا اور اکثر کتے پاگل ہوجاتے ۔ پاگل ہوتے ہی وہ بلا تفریق بچے بوڑھوں کو کاٹنا شروع کر دیتے۔ بستی کے لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا کر ان پر حملہ کر دیتے اور وہ بے زبان چیوں چوں کرتے کرتے جان دے دیتے ۔ کئی مرتبہ بستی کے لوگوں نے میونسپلٹی اہلکاروں سے گزار ش کی کہ ان آوارہ کتوں کو مارنے کی کوئی سبیل نکالیں لیکن میونسپلٹی اہلکار انکار کرتے ہوئے کہتے رہتے کہ قانونِ حیوانات کے مطابق کوئی بھی انسان کُتے کو مار نہیں سکتا ہے اور اگر کوئی یہ غلطی کر ڈالے گا تو اسے جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔ بستی کے لوگ جدید قانون کے اس انوکھے فیصلے کو سُن کر ششدررہ جاتے کہ انسان آوارہ کتے کو مارے گا تو جیل اور نہ مارے گا تو خود اس کی کاٹ سے ماراجائیگا ۔ لوگ پریشان تھے کہ کریں توکیا کریں ۔۔۔!بستی میں ایک دانا بزرگ رہتا تھا جو قدیم اور جدید علوم سے بھی آگاہ تھا ۔ اس کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کا ہر شخص قائل تھا ۔ وہ بستی کے مشکل سے مشکل مسئلوں کو اپنی ذہانت کے بل پر آسانی کے ساتھ حل کردیتا تھا۔ لوگ مجبوراً اس تشویشناک مسئلے کو لے کر اس کے پاس چلے گئے۔ اس نے تمام رودار سُن کر لوگوں کے سامنے ایک ایسی تجویز رکھی جس کو سُن کر لوگ فوراً مان گئے۔ لوگوں نے بستی سے باہر گھنے جنگل میں ایک بہت بڑی سرا ے بنا ڈالی ۔ یہ سرائے بنانے میں لوگوں کو کوئی خاص دشواری نہیں ہوئی ، چونکہ جنگل میں لکڑی وافر مقدار میں موجود تھی اسلئے چند ہی دنوں میں لکڑی کی ایک لمبی چوڑی سراے تیار ہوئی ۔ سرائے کا ایک حصّہ پاگل ہونے والے کتوں کے لئے رکھا گیا ۔ تما م کتوں کو ہانک ہانکا کر نئی جگہ کی طرف دھکیلا گیا۔ سرائے کے نزدیک ایک ندی بہتی تھی۔ بستی کے لوگوں نے ندی کے ساتھ ساتھ سرائے کے ارد گردایک بڑی دیوار بھی کھڑی کردی تاکہ کتے پھر سے بستی کی طرف نہ آسکیں۔ میونسپلٹی کے اہلکار بھی یہ سن کر خوش ہوگئے کیونکہ ان کی پریشانی دور کرنے کا مناسب حل نکل آیا تھا۔ انہوں نے فراخ دلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے دیپارٹمنٹ سے کتوں کے کھانے پینے کا انتظام کروایا۔ یہ اطلاع جب تحفظ حیوانات کے یورپین این ، جی اوز کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے حیوان دوستی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے سرائے کے پاس ہی ایک اسپتال بنوایا اور اپنے سوشل ورکر قابل رحم ڈاکٹر س کو وہاں پر تعینات کیا تاکہ وہ ان بے زبانوں کی دیکھ ریکھ کرتے ہوئے ان کے علاج معالجے کا بھی خیال رکھ سکیں۔ بستی کے لوگوں نے بھی راحت کی سانس لی۔ اب نہ کسی آدمی کو کتوں کی کاٹ سے کٹنے کا ڈر تھا اور نہ رات کے وقت نیند میں خلل اندازی کا کوئی اندیشہ تھا کیونکہ نہ کہیں کتا نظرآتا تھا اور نہ کہیں رات کے سایوں میں کسی کتے کے بھونکنے کی بے سر آواز سنائی دیتی تھی۔
زندگی کا کارواں سُبک رفتاری سے چلتا رہا۔ این ، جی اوز کی کوئی نہ کوئی ٹیم کسی نہ کسی دن گاڑی میں سوار ہوکر بستی سے گزرتی ہوئی سرائے کی طرف چلی جاتی۔ اسپتال کا تعیناتی عملہ چھوٹے چھوٹے پِلّوں کو دن بھر نہلا تا دھلاتا اور انہیں قسم قسم کے بسکٹس کھلاتا رہتا۔ بستی کے جو لوگ جنگل میں بھیڑ بکریوں کے ساتھ ہوتے تھے، وہ ان انگریزوں کی حیوان دوستی پر پہلے پہلے حیران پڑ جاتے لیکن آہستہ آہستہ اس حیرانی نے متاثر ہونے کا اثر شروع کردیا۔ وہ جب شام کے وقت کسی جگہ اکٹھا ہوجاتے تو غیر شعوری طور پر دوسرے لوگوں کو بھی انگریز وں کے طور طریقوں سے آگاہ کرتے رہتے۔ اب اگر بستی کا کوئی فرد بیمار ہوجاتا تو این جی اوز کے اہلکار اس کا مفت علاج کراتے رہتے ۔ لوگوں کو ان کے یہ کام پسند آنے لگے ۔ لوگوں کی پسند کو دیکھ کر این ۔جی ۔اوز نے پہلے بستی کے اندر ایک چھوٹا موٹا اسپتال کھولا جہاں پر مفت علاج کی سہولت دستیاب رکھی گئی۔ اس کے بعد لوگوں کی رضامندی سے ایک انگریز ی اسکول بھی کھولا گیا۔ دھیرے دھیرے بستی کے اندر انگریزی اسکول کا چر چا ہونے لگا ۔ بستی کے تعلیم یافتہ افراد نے جب اس نئے اسکول میں اپنے بچوں کو فخر کے ساتھ ایڈمیشن کر وایا تو بستی کے ان پڑھ افراد بھی اپنے بچوں کو جدید تعلیم دلوانے کے لئے اسکول کی طرف رجوع کرنے لگے۔ این ۔جی۔اوز نے بستی کے اقتصادی طور پسماندہ بچوں کے لئے مفت تعلیم دینے کا اعلان کروایا ۔ اب بستی کے بیشتر بچے انگریزی اسکول میں تعلیم پانے لگے۔ بستی کے دانا بزرگ نے کئی مرتبہ بستی کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنے بچوں کو ضرور جدید تعلیم دینے کی کوشش کرو لیکن ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم سے بھی روشناس کراؤ اور اس انگریزی اسکول کے بدلے اپناایک اچھا اسکول کھولو جہاں پر جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم کا بھی انتظام ہوناچاہئے تاکہ ہماری نئی نسل پڑھ لکھ کر انسانی خصائل سے بھی آراستہ ہو۔
وقت کی تیز رفتاری انسانی سوچ کو تیز رفتار بنادیتی ہے۔ تیز رفتار تیزرفتارگھوڑے کو جب اچانک ٹھوکر لگتی ہے تو وہ ایسے زمین پر دھڑام سے گرجاتاہے کہ پھر وہ منزل کی طرف آہستہ آہستہ چلنے کے قابل بھی نہیں رہتا ہے۔ بستی کے دانا بزرگ کی حکمت آمیز باتوں کی طرف لوگوں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔کوئی انہیں فرسودہ خیالات کہہ کے رد کر تا رہا اور کوئی انہیں جدید زمانے کی تیزرفتار ترقی میں رُکاوٹ کا مشورہسمجھ بیٹھتا۔ دانا بزرگ نہ قدیم خیالات کی وکالت کررہا تھا نہ جدید تعلیم سے بیزار تھا ‘وہ صرف انسانی قدروں کی پاسداری چاہتا تھا تاکہ انسان، انسان کی طرح زندگی گزار سکے۔ وہ خود انگریزی دنیا کا مشاہدہ کرچکا تھا۔ وہ ان کے ڈسپلن ، فکر و تدبر ، تعلیم وتربیت اور ترقی کے طور طریقوں کو پسند یدہ نظروں سے دیکھتا تھا اور اپنے لوگوں میں یہ خصائل دیکھنے کا خواہشمند تھالیکن اسے اگر نفرت تھی تو انگریزوں کی مصنوعی سوچ سے، مادیت پرستی اور ان کی مکارانہ فکر سے ۔ اس کے ذہن میں حکیم الاّمت علامّہ اقبالؔ کا انگریزوں کی فطرت پر فرمایا ہوا یہ پُر حکمت مصرع ہمیشہ رہتا تھا۔
’’پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات ‘‘
بستی کے لوگ انگریزی اسکول کی صاف ستھرائی ، ڈسپلن ، تعلیم اور بول چال سے متاثر ہوتے رہے۔ یہ چیزیں یقیناًقابل ستائش تھیں کیونکہ انسان کو صاف ستھرائی ، ڈسپلن اور تعلیم کے نور سے ضرور آراستہ ہونا چاہئے۔ بستی کے اکثر بچے انگریزی اسکول میں تعلیم پاتے رہے۔ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے رہے۔ سمیناروں میں حصّہ لے کر بڑے بولڈ بنتے گئے۔ہائر ایجوکیشن کے لئے انہیں مغربی ممالک بھیجا گیا۔ وہ بڑی بڑی ڈگریاں لے کر واپس آتے گئے۔ بستی کے قدیم ماحول میں جدید ہوائیں چلنے لگیں۔ بستی کے بیشتر گھرانوں میں جدید سہولیات کی تمام چیزیں پہنچ گئیں۔ گھر گھر میں ڈش ٹی وی،انٹر نیٹ اور موبائیل کی دُھنیں بجنے لگیں۔ صبح کے وقت اخلاقیات کی کتابوں کے بجائے انٹر نیٹ اور ڈش ٹی وی کے فحاش مناظر کی طرف ذہن راغب ہوتے گئے۔ اب اسپتالوں میں خراب گردے کے ساتھ ساتھ اچھے گردے بھی غائب ہونے لگے۔ دفتروں میں انسانوں کے نوکیلے دانتوں سے لوگ زخمی ہونے لگے۔ رات کے وقت گلی کوچوں میں نشہ آور حیوان شکار کی تاک میں آنکھیں پھارڈ پھارڈ کر گھومنے لگے۔ باحیا ء عورتوں کا گھر سے نکلنا دو بھر ہوگیا۔ نئی نسل کے ذہنوں پر صرف مادیت کا بھوت سوار تھا۔ دنیوی زندگی کو حتمی زندگی سمجھنے کا تصور پھیل چکا تھا اور آخر ت کی زندگی کو دیوانے کا خواب کہہ کر رد کیا جارہاتھا۔ انسانی رشتوں کا تصور ختم ہونے لگا ۔ نیکی اور بدی کے درمیان کوئی فرق نہ رہا۔ عبادت گاہوں کی طرف چند بزرگ کمر جُھکا ئے ہوئے جاتے نظر آرہے تھے۔ ہر طرف آپا دھاپی کا عالم تھا۔
نئی نسل کی طوفانی زندگی کے زہریلے تھپیڑوں سے بزرگوں کے دل دہلنے لگے ۔ نئی نسل کی دین بیزاری ، بے راہ روی ، خودغرضی اور سانپوں والی فطرت سے خوف زدہ ہو کر بستی کے بزرگوں نے جب احتجاج کرنا چاہا تو انہیں یہ سُن کر اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا کہ انہوں نے آنکھیں بند کرکے جن بچوں کو مغربیتکی سونامی میں پھینکا تھا وہ آج طوفان بن کر انہیں اپنے ہی گھروں سے بے گھر کرکے برسوں پرانی بنائی ہوئی کتوں کی سرائے کو اولڈ ایج ہوم (Old Age Home)بنانے کا اعزاز دے کر بے یار ومدد گار بھیجنا چاہتے ہیں۔
بستی کے لوگ بظاہر خوشحال دکھائی دے رہے تھے لیکن ان کے دل اندر ہی اندر ٹوٹ چکے تھے۔سماج میں مادی چیزوں کی فراوانی کے باوجود روحانی سکون کا جنازہ نکل چکا تھا۔ بزرگ اس طوفان سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ بہت ساری ترکیبیں جب ناکام ثابت ہوئیں تو وہ بالآخر لاچار ہوکر بڑی شرمندگی کے ساتھ بستی کے دانا بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔بزرگ نماز پڑھنے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہوا۔ ان لوگوں کی دردناک داستان سُنتے ہی وہ آنکھیں بند کرکے برسوں پہلے کے اس دہشت ناک حادثہ میں کھو گیاجب بستی کے اند رآوارہ کتوں نے ہڑبونگ مچا رکھی تھی اور کسی بھی راہ چلتے انسان کو اپنے نوکیلے دانتوں سے کاٹ کھاتے تھے ۔
تمام لوگ دانا بزرگ کے حکمت بھرے خیالات سننے کے لئے بے تاب ہورہے تھے۔لوگوں کے چہرے پر خوف کی ہوائیں اڑ رہی تھیں۔بزرگ نے آنکھیں کھولتے ہوئے ان لوگوں کے سامنے ایک حکمت بھری تجویز رکھی اور انہیں اس تجویز پر جلد عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے رخصت کردیا۔
لوگوں کے ذہنوں میں انتشار کے بجائے سکون نے جگہ پائی او ران کے دلوں میں وسواس کے بجائے یقین کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔ صبح ہوتے ہی لوگ کالے لباس میں سفید جھنڈ ے اٹھاتے ہوئے انگریزی اسکول کی طرف طوفان بن کر دوڑ پڑے۔ این ۔ جی ۔ اوز کے تمام اہلکار راتوں رات بھاگ گئے تھے۔ اسکول کے اوپر سبز جھنڈا چڑھا یا گیا ۔ انگریزی تہذیب کی پرور وہ نسل خوف زدہ ہو کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگی۔ انہیں مشرقی تہذیب کی دلدادہ نسل نے رسیوں سے باندھ کر سرائے کی طرف گھسیٹا ، پھاٹک کھولتے ہی بند سرائے کے کتے بستی کی جانب دوڑ پڑے۔ سرائے کے اوپر ایک بہت بڑا بورڈ لٹکا یا گیا جس پر جَلی حروف سے لکھا ہوا تھا۔۔۔ مینٹل ہاسپٹل۔