مزید اک بار پر بار گراں رکھا گیا ہے
مزید اک بار پر بار گراں رکھا گیا ہے
زمیں جو تیرے اوپر آسماں رکھا گیا ہے
کبھی تو چیخ کر آواز دے تو جان جاؤں
مرے زندان میں تجھ کو کہاں رکھا گیا ہے
مری نیندوں میں رہتی ہے سدا تشنہ دہانی
مرے خوابوں میں اک دریا رواں رکھا گیا ہے
ہوا کے ساتھ پھولوں سے نکلنے کی سزا میں
بھٹکتی خوشبوؤں کو بے اماں رکھا گیا ہے
مگر یہ دل بہلتا ہی نہیں گو اس کے آگے
تمہارے بعد یہ سارا جہاں رکھا گیا ہے