مزدور بے چارا

ہوتا نہیں دم بھر بھی سکوں اس کو گوارا
جس خاطر بیتاب کی فطرت ہی ہے پارا
مظلوم کی فریاد سے جل جائے گا عالم
صد شعلہ بہ داماں ہے ان آہوں کا شرارا
غم‌ دیدوں کو دے عیش و طرب اور عطا کر
تاج سر سلطانیٔ تیمور گدا را
گرما دے رگیں اس کی امارت کے لہو سے
جس ہستیٔ بے مایہ کا غربت ہے سہارا
تخریب کے بندوں کو بس اب ہو نہیں سکتی
انسان کی انسان سے تفریق گوارا
پابند سہی دہر میں آئین جہاں کے
پیران کلیسا کا ہے کیا اس میں اجارا
تہذیب و تمدن ہیں امارت کے سہارے
مزدور کی غربت کا نہیں کوئی سہارا