مزدوری
شام نے جونہی آنچل پھیلایا۔نیلو نے اپنا آنچل سمیٹ لیا۔سینے کی تنی ہوئی چٹانوں پر نگاہ ڈالی۔کھلے بالوں کو پکڑکر جوڑے میں قید کیا۔ گردن کو موتیوں کی مالا سے سجایا۔ پاؤں میں ہیل پہنی۔ ہینڈ بیگ اٹھایا۔ کمرے کا دروازہ بند کیا۔ اب نیلو گلی میں تھی۔نیلو کے پاؤں تلے زمین تھی اور سر پر آسمان۔اس وقت گلی میں تینوں کا راج تھا۔آسمان کی آنکھ نے نگاہ بھر کر نیلو کے آنچل میں جلوہ گر جگنوؤں کو دیکھا۔یہ تو اس کے تاروں کو مات دئیے جارہے تھے۔
” یہ ستارے بھلا میں اپنے آنچل پر کیوں نہیں سجا سکتی۔ پھر ایک رات کی ہی تو بات ہے۔ میں کون سا یہ آنچل روز اوڑھتی ہوں“۔ اس نے مسکرا کر فلک کی طرف دیکھااورتیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی گلی سے نکل گئی۔
دن کی روشنی سمٹی۔ اندھیرے کا گھڑیال بجا۔ مستری نے قادر کو سامان سمیٹنے کا اشارا کیا۔اس نے مستری کا اشارا پاتے ہی دابڑے دھوئے۔پلاسٹک کا ٹب، بیلچہ، کانڈی، گرمالااور کئی سب کو ایک طرف لگایا۔اپنے شاپر سے صاف کپڑے نکال کر پہنے۔ پرانے کپڑے اور پلاسٹک کے سلائی شدہ جوتے کوشاپر میں ڈالا۔ مستری بھی کپڑے تبدیل کرچکا تھا۔
”یہ لو اپنی مزدوری۔ تمہارا حساب بے باق ہوا۔کل گاؤں سے میرا اپنا مزدور آجائے گا۔“ مستری نے اس کی طرف پیسے بڑھاتے ہوئے کہا۔قادر نے آہ بھرتے ہوئے پیسے اپنے سلوکے میں ڈالے اوررب کا شکر ادا کرتے ہوئے مستری کے ساتھ باہر کو چل دیا۔
شا م کا نور پھیلا تواذان کی آواز نے دور دور تک جاکر ایمان والوں کے کانوں پر دستک دی۔ بابا جی نے بھی ہمت کرکے پاؤں چار پائی سے نیچے رکھا۔ انہوں نے جلدی جلدی چپل پہنی اور گھر سے نکل گئے۔ ان کی زبان پر درود شریف کا ورد جاری تھا۔فرش تا عرش کا سفر۔ باباجی بچپن سے پنج وقتہ نماز کے عادی تھے۔گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا خشکی۔ وہ نماز ضرور ادا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے وہ بستی میں واقع واحد مسجد کی طرف قدم بڑھانے لگے۔
یہ بستی مزدوروں کی بستی تھی۔ کوئی راج مزدوری کرتا تھا تو کوئی پھل فروٹ کی ریڑھی لگاتا تھا۔ قادر بھی اسی بستی کا مکین تھا۔ با باجی بھی اسی بستی میں رہتے تھے۔نیلو اس بستی کے پیچھے والی ایک گلی میں رہتی تھی جس میں زیادہ تراس جیسی عورتیں ہی رہتی تھیں۔نیلو کی ماں جب تک زندہ تھی۔ اس نے اسے گھر سے باہر قدم رکھنے نہیں دیا۔ ماں نے آنکھیں بند کیں تو دنیا والوں نے آنکھیں کھول لیں۔اس نے ان کھلی آنکھوں میں جھانکا تو اسے اپنے لیے ایک ہی دھندا نظر آیا۔بدن برائے فروخت۔
دن بھر کی مشقت کے بعدقادر بستی میں داخل ہو ا۔ جسم کی تھکن اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ نیلو نے قادر کو دیکھتے ہی اپنے قدموں کو اس کی جانب موڑ دیا۔ قادر کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے اپنے کندھے کو اس کے کندھے سے جا ملایا اورقادرکے سخت ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ہاتھوں کی سختی سے اس کے کام کی مشقت کا اندازہ ہو رہا تھا۔
”چھوڑ نیلو۔ تجھے کتنی بار کہا ہے کہ مجھے مت چھوا کر۔“قادر نے جھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”کیوں، کیا میں پلید ہوں جو تومیرے چھونے سے پلید ہو جائے گا۔“ نیلو کی آواز میں اداسی ناچنے لگی۔
اس نے شکستہ دلی کے سا تھ قدم بڑھادیا۔ باباجی مسجد کو جا رہے تھے۔ اس نے جلدی سے آنچل کو اپنے ابھرے ہوئے سینے پر پھیلا لیا۔ بابا جی نے ہیل کی ٹک ٹک کی آواز پرسامنے سے آتی ہوئی نیلو کو چونک کر دیکھااورنگاہیں جھکا لیں مگر نیلو نے ان کو سلام کرنے کا فرض ضرور ادا کیا۔بابا جی نے دھیرے سے نیلو کے سلام کا جواب دیا اور آگے کو بڑھ گئے۔
قادر نے کوٹھری کا دروازہ کھولا تو ویران صحن میں یادوں کاجہان آباد تھا۔ماں نے ابھی گرم روٹی توے سے اتاری ہی تھی۔ وہ قادر کا انتظار کررہی تھی۔ قادر نے پلکیں جھپک جھپک کر ماں کی طرف دیکھا۔
”ماں ماں،ارے یہ تو اس کی پرچھائیں تھیں۔ نہیں یہ تو ایک وہم تھا۔ماں نے تو ایک سال ہوئے خاک کو اپناٹھکانہ بنا لیا تھا۔ایک سال سے توا بھی ٹھنڈک کی سل پر رکھا تھا۔ اب کون تھااسے گرم روٹی پکا کر دینے والا۔“ قادر کی آنکھوں میں یادں کا شیشہ ٹوٹا توکرچیاں دل کو جالگیں۔اس نے بستر کھولااور تھکے ہو ئے جسم کو تھپکی دینے لگا۔ نیند آتے آتے آہی گئی۔
بابا جی نے نماز کے بعد وہاں بچھی صف پر ہی ٹھکانہ کرلیا۔کون تھاگھر میں۔ لگائی نے ایک سال پہلے آنکھ موند لی تھی اور بابا جی کو اپنے ایک بیٹے کے حوالے کر گئی تھی۔ بیٹا اس وقت تک باباجی کا رہا جب تک بابا جی نے اسے کسی دوسری عورت کے حوالے نہیں کیا۔وہ بیٹے کو لے کر نکل گئی تو بابا جی اکیلے رہ گئے۔ اب گھر میں ان کی آوازیں گو نجتی تھیں اور بابا جی ساری ساری رات ان سے باتیں کرتے تھے۔ عشاء کی نمازکے بعد مسجد میں ذکر کی محفل جم جانی تھی۔ گھر جاکر کیا کرنا تھا۔ آج بے وفا لوگوں سے باتیں کرنے کی بجائے اللہ سے ہی لو لگا لی جائے۔
رات کی سیاہی میں تن کوشی کی ریاضت جاری تھی۔فاختہ کی چہکار گاہک کے من کو خوب لبھا رہی تھی۔ نیلو کے بدن سے آوازوں کاترنم نکلتا تو گاہک کی خوشی دیدنی ہوتی۔قادر کی رات بستر پر کٹ گئی۔ بابا جی کی مسجد میں اور نیلو کی ہوٹل میں۔ رات کا فسوں اپنی جگہ سر چڑھ بولتا رہا۔ رات نے جسے جوچاہیے تھا۔ اسے دیا۔کسی کو آرام، کسی کو سکون اور کسی کو اضطراب۔ نیلو کا بدن بولتا رہا، جھکتا رہا، تھمتا رہا، چلتا رہااور تھکتا رہا۔رات کے پچھلے پہر گاہک کو اونگھ آگئی۔ پیسے پورے ہو چکے تھے۔ نیلو نے بھی گھڑی بھر کوآنکھیں موند لیں۔ دوسری گھڑی کو گھر جانے کا وقت ہو جانا تھا۔
جھٹپٹے کا وقت تھا۔ قادر نے آنکھیں کھول دیں۔ آج مزدوری بھی تلاش کرنی تھی۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ کوٹھری سے نکل گیا۔سامنے سے پسپابدن نیلو چلی آرہی تھی۔ بالوں کا جوڑا کھل چکاتھا۔گردن موتیوں کی مالا سے بے نیاز تھی۔ نیلواٹھلاتی ہوئی قادر کے پاس سے گزری تو اس کے جسم سے اٹھنے والی بدبو سے قادر کا دل متلانے لگا۔
” لعنت بھیج ان پیسوں پر جو جسم کوگندا کرکے ملتے ہیں“۔اس نے نیلو کی طرف نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”اچھا وہ جو تو روز اپنا جسم گندا کرکے پیسے حاصل کرتا ہے۔وہ کیا ہے۔“ نیلو کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔
”میں محنت کرتا ہوں نیلو۔ میرے جسم سے محنت مزدوری کی خوشبو آتی ہے۔اسے بدبو کا نام نہ دے۔
مزدور کی جسم سے اٹھنے والی خوشبو اللہ کو بہت پیاری ہے۔“
”میں بھی محنت کرتی ہوں۔ کبھی کسی عورت کے جسم سے کھیل کر دیکھا ہے۔ عورت بیوی ہو یا طوائف۔ اس کی مشقت کا صلہ ہی تو اسے ملتا ہے۔
” نیلو، یہ پیسے حرام کے ہیں۔“
” آ میرے ساتھ آ۔ مسجد کے باہر خیراتی غلے میں پیسے ڈالتی ہوں۔ دیکھتی ہوں خدا کی آواز آتی ہے یا نہیں۔“
”غلہ تو بے جان ہے۔وہ کیا بولے گا۔“
”خدا تو بے جان نہیں۔ چل چھوڑ اپنی بستی کے مولوی کے پاس چلتے ہیں۔ میں تیرے سامنے اسے پیسے دوں گی۔ چوم چاٹ کر نہ لے گا تو پھر کہنا “۔
قادر نے بحث کوطول دینا مناسب نہ سمجھااور دوہرے رویوں کی گھٹڑی سر پر باندھے نکل گیا۔
بات آئی گئی ہو گئی۔قادر اپنے معمول پر کاربند رہا۔ نیلو بدن سے بدن کو تسکین دینے میں مگن رہی۔ بابا جی کا سفر بس گھر سے مسجد تک تھا۔ گھر کے باہر تھڑے پر لگی ہوئی دکان سے چار پیسے آجاتے تو روٹی ٹکر کاسامان ہو جاتا تھا۔انہیں اس سے زیادہ چاہیے بھی نہیں تھا۔کبھی کچھ زیادہ یا بڑھیا کھانے کو دل بھی کرتا تو بدن اسے سنبھالنے سے انکار کردیتا۔ترسی ہوئی روح کی وہ کب سنتا تھا۔
بستی کے تمام مکین اپنی اپنی زندگی کی پتنگ کو اڑا رہے تھے۔کسی کی ڈور کٹ جاتی تو وہ زمین بوس ہو جاتا۔ کسی کو کسی سے کوئی غرض اس لیے نہیں تھی کیونکہ کسی کے پاس کسی کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔وقت سب کاجیسے تیسے کر کے کٹ رہا تھا۔بدلا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہی نیلومٹکتی اور اٹھلاتی ہوئی۔ وہی قادر خراماں خراماں۔ وہی بابا جی رواں دواں۔تینوں ایک دوسرے کو دیکھتے، مسکراہٹ پھینکتے اور آگے کو بڑھ جاتے۔
سفر کرنے سے کٹتاہے۔ رک گیا تو سمجھو مسافر کے پاؤں شل ہوگئے۔ آزار تن کو چمٹ گیا۔ جنگل روح سے لپٹ گیا۔ شایدایسا ہی کچھ تھا۔ نیلو کے جانے اور آنے کا وقت وہی تھا مگر اس نے ایک ہفتے سے نہ بابا جی کو دیکھا تھا اور نہ ہی اسے قادر نظر آیا تھا۔ اس کے من کو تشویش ہوئی۔
” جانے کیا ہوا۔ نہ باباجی ہی نظر آرہے ہیں اور نہ قادر۔“
اگلی صبح نیلو لوٹی تو اس نے اپنی کوٹھری میں جانے سے قبل بابا جی کے گھر کو رخ موڑ لیا۔ بابا جی بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔قادر ان کا سر دبا رہاتھا ۔گلی کے دو بچے ان کی ٹانگیں دبا رہے تھے۔ نیلو بابا جی کی چار پائی کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
”بابا جی۔ آپ بیمار تھے۔ مجھے پتانہیں تھا۔ ورنہ میں خبرلینے آجاتی۔“ نیلو کے لہجے میں شرمندگی تھی۔
بابا جی نے نیلو کی آواز سن کر آنکھیں کھولیں۔وہ نقاہت زدہ آواز میں بولے۔
” قادر نے ڈاکٹر کو دکھایا ہے۔دوائی بھی لایا ہے مگرطبیعت نہیں سنبھل رہی“۔
”آپ کو اچھی خوراک کی بھی ضرورت ہے اور کسی اچھے ڈاکٹر کو بھی دکھانا چاہیے“۔
نیلو نے اپنے بیگ سے رات بھر کی کمائی نکالی اور بابا جی کے سرہانے چند میلے نوٹوں کے ساتھ رکھ دی۔ بابا جی نے ایک نظر نیلو کو دیکھا۔ دوسری نظر نوٹوں پر ڈالی۔ جسم وجاں کو جھلساتی ہوئی روح کی تپش چہرے پر جھلکنے لگی۔
نیلو نے بیگ اٹھایااور فاتحانہ انداز میں قادرکو دیکھتے ہوئے باہر کی طرف چل دی۔تازہ سرد ہوا میں اس کے وجود نے جھرجھری لی۔ نیند کی طلب میں قدم لڑکھڑاہے تھے۔ وہ خود کو سنبھالتی ہوئی
گلی کی نکڑ تک پہنچی ہی تھی کہ دونوں بچے خوشی سے سرشار تیزی سے بابا جی کی کوٹھری سے نکلے اور نیلو سے جا ٹکرائے۔ان کے ہاتھوں میں دبے ہوئے نئے نویلے نوٹ زمین پر گر گئے۔نیلو نے جونہی یہ منظر دیکھا۔ اس کے قدم ساکت ہوگئے اورنیند آنکھوں سے رخصت ہوگئی۔